ملک میں جمہوریت کے نام پر جو نظام مسلط ہے اس کا جمہور اور اہل جمہور سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اصلاً اس نظام میں پائی جانیوالی معاشی ناانصافی، سماجی ناہمواریوں اور مذہبی عدم رواداری نے مختلف طبقات اور گروہوں کو ایک ایسی جدلیاتی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے جو جلد یا بدیر بالآخر باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر جائیگی افراد کے درمیان پائی جانے والی تفاوت اور تفریق نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طبقہ دوسرے کا مسلسل استحصال کئے جا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ریاستی ادارے اور قانون و انصاف کی علمبردار قوتیں، سیاسی پارٹیاں اور انکے رہنما عملاً بے بسی اور بے حسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ سب ”سٹیٹس کو“ کے قائل ہیں۔ کسی کے ہاں فکری اور نظریاتی سطح پر کوئی انقلابی سوچ اور ویژن دکھائی نہیں دیتا۔ وسائل سے مالا مال مراعات یافتہ حلقہ رات دن لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہے اور عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بالائی طبقہ جس تیزی سے دولت، طاقت اور رزق کے ذرائع پر قابض ہوتا جا رہا ہے وہ انتہائی خوفناک نتائج کی نشاندہی کرتا ہے۔ لگتا یوں ہے جیسے غریب آدمی اب روٹی نہیں صرف دھوکے اور دھکے کھائے گا یا پھر پیچ وتاب جو اس کے کھانے کیلئے وافر مقدار میں ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔
اس پیوست زدہ نظام بد میں عام اور غریب آدمی کیلئے صرف اور صرف ہلاکت ہے جب کہ یہ طاقتور کو مزید طاقت، دولت مند کو مزید دولت اور بااختیار کو مزید اختیار فراہم کرتا ہے، اسی لئے حکرانوں، سیاست دانوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، بیورو کریسی (سول اور آرمڈ) اور مذہبی اجارہ داروں پر مشتمل ”اشرافیہ“ بلکہ بقول مجید نظامی بدمعاشیہ اس نظام کو قائم و دائم رکھنے کیلئے اسکے گردا گرد ”حفاظتی حصار“ بنائے کھڑی ہے، اور غریب بے بس اور مجبور عوام غربت کی لکیر کے اس طرف دور کھڑے ان ظالموں پرکنکر بھی نہیں پھینک سکتے نتیجتاً وہ زمین پر نہیں اس نظام پر اور اس نظام کی پروردہ استحصالی قوتوں کے چہروں پر تھوکتے ہیں۔ جب تک یہ نظام جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاتا اس معاشرے میں کوئی چودھری اور انقلابی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، اب سوال یہ ہے کہ موجودہ ”سٹیٹس کو“ کیونکر تبدیل کیا جا سکتا ہے اور وہ کون لوگ ہونگے جو اس کا محرک ثابت ہوں گے یقیناً یہ وہ لوگ ہونگے جو اس نظام کی مکروہ اور ظالمانہ ریشہ دوانیوں سے براہ راست متاثر ہیں اور اسکے اثرات بد کی زد میں رہتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ یہ لٹے پٹے اور گرتے پڑتے افراد متحد ہو اور اپنے اجتماعی سماجی طبقاتی اور سیاسی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ظلم و جبر اور استحصالی نظام کے خلاف حرف انکار اور صدائے للکار بلند کریں اور اگر یہ بھرے ہوئے شکموں والے دولت کے ڈھیر پر بیٹھے اور لاکھوں کروڑوں افراد کے رزق پر قابض ظالم اجارہ دار رزق بانٹنے پر آمادہ نہ ہوں تو انکے ساتھ بھوک بانٹنے کا ارادہ پختہ کیا جائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس عمل میں ایک آدھ استثناءسے قطع نظر کسی سیاسی اور سماجی رہنما سے تعلق خاطر قائم ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استحصال زدہ نچلا اور پسا ہوا طبہ اپنے ہی اندر سے قیادت کو اجاگر کریں اور ایک ایسے سماجی اور طبقاتی انقلاب کیلئے راہ ہموار کریں جس میں بلاتعصب ہر ایک کو مکمل معاشی، سماجی، طبقاتی اور مذہبی انصاف اور رواداری کا ماحول میسر ہو جس میں سب کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیں جس میں دولت، طاقت، وسائل اور رزق کی منصفانہ تقسیم ہو جس میں ہر کسی کو رواداری اور برابری کے ساتھ دیکھا جائے یہ کوئی ”یو ٹوپیئن“ یا خیالی نظام کا ذکر نہیں ہے بلکہ اپنے آس پاس کی دنیا پر نظر دوڑائیں تو اسکی درجنوں مثالیں ملیں گی اور پھر یہ بھی غور فرمائیں کہ ہم ان لوگوں اور سماجوں کو کن ناموں اور القابات سے پکارتے ہیں۔