پاک فوج کیلئے قرارداد میں سیاست کیسی؟

May 21, 2014

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

آخر پنجاب اسمبلی میں پاک فوج کے حق میں قرارداد کے لئے جھگڑا کیوں ہوا؟ اس جملے کے اندر سوال تو ہے جواب بھی موجود ہے۔ ہر سوال کے اندر جواب موجود ہوتا ہے۔ آخری سوال میں تو پورے کا پورا جواب موجود ہوتا ہے۔ آخری سوال تک کسی کو پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا… ہم سوال سے ڈرتے کیوں ہیں۔ یہ بھی سیدھا سادا سوال ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار میں جاتے ہیں تو فوج سے ڈرتے کیوں ہیں اپوزیشن میں کبھی کوئی سیاستدان فوج سے نہیں ڈرتا۔ وہ اگر ٹھیک ہوں سچے حکمران ہوں۔ واقعی حکمران ہوں تو پھر گھبراہٹ کس بات کی؟ اگر گڈگورننس ہو فلاح و بہبود کے معاملات ہوں۔ قانون کی حکومت ہو۔ لوگوں کی حکومت ہو۔ چند لوگ اقتدار پر قابض نہ ہوں۔ خاندانی حکومت نہ ہو۔ کرپشن نہ ہو۔ اقربا پروری نہ ہو بے جا نوازشات نہ ہوں اپنے پسندیدہ لوگوں کے لئے ہر طرح کی مراعات مناسب اور سہولتیں نہ ہوں۔ سب کے لئے ایک جیسا حال ہو واقعی جمہوریت ہو توپھر ڈر کیسا؟
پاک فوج کے لئے پنجاب اسمبلی میں مونس الہٰی کی طرف سے اپوزیشن کی قرارداد پیش ہونے دی جاتی تو اس میں حرج ہی کیا تھا۔ سب کچھ سب کے سامنے آ جاتا۔ پھر حکومت کو اپنی قرارداد لانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔
سپیکر تو سارے ہاؤس کا ہوتا ہے۔ اس نے مونس الٰہی کی قرارداد کی اجازت نہ دی وقفہ سوالات کا بہانہ بنایا۔ وقفہ سوالات کے بعد قرارداد آئی تو کہا گیا کہ اب تو حکومتی قرارداد آچکی ہے۔ یہ سراسر غیر جمہوری غیر پارلیمانی رویہ ہے۔ فوج سے نوکری لینے کا طعنہ اگر قرارداد میں ہے تو یہ قرارداد تو حکومت کی طرف سے آئی ہے۔ حکومت سے بڑی نوکری کیا ہوتی ہے؟ حکومت اور اپوزیشن کی قرارداد میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں ایسا جھگڑا اور ہنگامہ دیکھنے میں نہ آیا تو پنجاب میں مشکوک صورتحال کیوں بننے دی جا رہی ہے۔
کتنے ہی لوگ اب بھی ن لیگ میں ق لیگ کے ہیں۔ حالات بدلیں گے تو یہ بھی خود کو تبدیل کر لیں گے۔ فارورڈ بلاک میں کون لوگ تھے آج کئی وزیر پہلی حکومتوں میں بھی وزیر تھے۔کیا اس کھیل کو بھی جمہوری ہی کہا جائے گا۔ کوئی مجھے بتائے کہ ہم ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانے والوں کو لوٹا کہتے ہیں۔ دوسری پارٹی سے مراد اقتدار کی پارٹی ہے۔ کبھی اس پارٹی کے لوگ اپوزیشن میں بھی تھے وہ کیوں ایسے لوگوں کو قبول کرتے ہیں کیا یہ بھی جمہوریت کا کوئی تقاضا ہے؟
ایک سیاستدان مستقل ممبر اسمبلی نے اپنے گھر کی پیشانی پر لکھوایا ہوا تھا۔ ’’موجودہ حکومت زندہ باد۔ جس کی بھی حکومت ہو جیسی بھی ہو جو بھی ہو۔ وہ موجودہ تو ہو گی۔ ایک ایسے کرپٹ سیاستدان سے پوچھا گیا تو اس نے کہا میں کہاں تبدیل ہوتا ہوں۔ حکومت ہی پارٹی بدل لیتی ہے۔ اسے تو آپ کچھ نہیں کہتے بس میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ حکومت بھی پارٹی نہیں بدلتی۔ وہی چند لوگ ہیں جو بار بار آ جاتے ہیں۔ باری سے مراد ہے بار بار آنا۔ آتے رہنا۔ یہ بھی شاید جمہوریت کی کوئی قسم ہے۔
چودھری پرویز الٰہی ایک ٹی وی پروگرام میں رانا مشہود کی باتوں کے جواب میں کہہ رہے تھے کہ کل یہ ہمارے بارے میں ایسی باتیں نہ کرتے تھے۔ جو آج نواز شریف کے لئے کر رہے ہیں۔ وہ کل ہمارے بارے میں کرتے تھے۔ یہ کل پھر آجائے گی توبات بدل جائے گی۔ ایسے لوگوں کے ساتھ مجھے گفتگو کے لئے نہیں بلانا چاہئے۔ نواز شریف کے ساتھ شیخ رشید کو تو نہیں بلایا جائے گا؟
رانا مشہود ایک زمانے میں ڈپٹی سپیکر تھے ان کا رویہ بھی ایسا ہی تھا جو قرارداد کے لئے آج کے ڈپٹی سپیکر کا تھا۔ رانا مشہود تب سپیکر رانا اقبال بننے کی خواہش کرتا رہا آج وزیر ہے تو رانا ثناء اللہ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ دبنگ آدمی تو ضرور ہے۔ ان کے لئے بھی کوئی کہہ رہا تھا کہ ایک زمانے میں ق لیگ والوں کے دروازے پر دستکیں دیتا تھا۔ یہ دستک بھی جمہوریت میں چل جاتی ہے۔ رانا مشہود کہتے ہیں کہ لڑکیاں چھٹیوں میں ہوم ورک کے ساتھ گھر کے اندر صفائی بھی کریں اور گھر کے باہر صفائی کی ذمہ داری کس کی ہے۔ سیاست میں جو گند ہے اسے کون صاف کرے گا۔ وزیر اور ممبران صرف گندگی اور بندگی کے لئے ہوتے ہیں۔
ن لیگ میں کئی لوگ فوج اور حکومت میں کچھ کرا کے دم لیں گے۔ پرویز رشید کی بہت خواہش ہے کہ کچھ ہو جائے۔ انہوں نے غلیل اور دلیل کی بات کی۔ دلیل مخصوص میڈیا کے لئے اور غلیل پاک فوج کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس میں جو ’’روڑے‘‘ ہیں وہ بھارت سے منگوائے گئے ہیں۔
ایک ریلی پاک فوج کے حق میں بیرون ملک بھی نکالی گئی ہے۔ بریڈ فورڈ کو منی پاکستان کہتے ہیں اس ریلی سے خطاب لارڈ نذیر نے کیا۔ وہ پاکستان کی سچی سیاست کے ترجمان برطانوی پارلیمنٹ میں سمجھے جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہم لارڈ نذیر کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے برمحل برحق اور بروقت پاک فوج کے لئے یکجہتی کا اعلان کرکے بہت بڑا کام کیا ہے۔ لارڈ نذیر کشمیر اور فلسطین کے لئے بھی آواز بلند کرتے ہیں۔ وہ بہادر آدمی ہیں۔ انگریز قوم اپنے بہادر نمائندگان کو پسند کرتی ہے۔ اس ریلی میں قرارداد بھی پاک فوج کے حق میں منظور ہوئی۔ کوئی جھگڑا اور ہنگامہ نہیں ہوا۔ کیا برطانوی جمہوریت اور پاکستانی جمہوریت میں کوئی فرق ہے؟ میرا تو خیال ہے کہ ملک اور قوم کی جمہوریت بھی اپنی اپنی ہونا چاہئے۔ پاکستان کی جمہوریت صرف حکومت کا نام ہے۔ کلچر اور ثقافت تو کہیں دور دور تک نہیں ہم کسی چیز کو اپنا نہیں کہہ سکتے۔ ہمارے ہاں جمہوریت ابھی کچی پکی ہے۔ جمہوریت کا مطلب حکام کے خیال میں کچھ اور عوام کی نظر میں کچھ اور ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ حکومت خطرے میں ہے۔

مزیدخبریں