مادے سے روح تک کا سفر

وہ شمالی مصر کے علاقے شرقیہ میں ایک دیہاتی کسان کے گھر پیدا ہوا،گھر میں کھانے پینے کوتو بس پورا پورا سامان ہوا کرتا تھا، لیکن گھر والوں کی علم اور کتاب سے محبت بہت مثالی تھی، یہ اس خاندان کا حصولِ علم کاذوق ہی تھا کہ اسکول گاؤں سے میلوں دورہونے کے باوجود وہ کئی میل کا فاصلہ زیادہ تر تو پیدل ہی طے کرتا اور کبھی وقت کم پڑتا تو اُس کا باپ اُسے اسکول تک پہنچنے کیلئے کھیتی باڑی کے استعمال کیلئے رکھا گیا گدھا دے دیتا۔ اُس نے صرف اسکول تک کا ہی فاصلہ اس طرح کے کٹھن اور مشکل حالات میں طے نہیں کیا، بلکہ اس کی ساری زندگی ہی چیلنجز سے عبارت تھی۔ اس نے اعلیٰ تعلیم کیلئے ’’مادی سائنس‘‘ کا سب سے مشکل مضمون منتخب کیا، اسکالرشپ پر امریکہ سے میٹلرجیکل سائنسز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ ساؤتھ کیلی فورنیا میں ہی گزارا اور پھر ملک کی خدمت کیلئے واپس مصر لوٹ آیا۔ کسی نے واپسی کی وجہ پوچھی کہ امریکہ میں اچھا بھلا مستقبل چھوڑ کر واپس کیوں پلٹ آئے تو اس نے جواب دیا ’’ مادی سائنس میں، میں نے جو پڑھا، جانا اور سیکھا، اسکے مطابق مادہ کائنات میں تو سب کچھ ہے، لیکن انسانی زندگی میں مادہ کچھ بھی نہیں، انسانی زندگی میں اگر کچھ ہے تو وہ صرف روح ہے، میں مادی سائنس سے روحانی سائنس کی طرف پلٹنے کیلئے ملک واپس آگیا ہوں‘‘۔ ملک واپس آنے کے بعد مذہب کی طرف اس کا لگاؤ اور زیادہ ہوگیا، دین سے دینی جماعتوں کی طرف اور دینی جماعتوں سے مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون اس کی منزل ٹھہری، اُس نے سیاست میں حصہ لیا، الیکشن لڑکر پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا، عرب بہار کے بعد مصر سے حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو وہ صدارتی الیکشن لڑ کر مصر کا پہلا سول صدر منتخب ہوگیا۔ گدھے کی پشت سے ایوان صدر کی نرم و گداز گدیوں تک حیران کن سفر طے کرنے والا یہ کوئی اور نہیں بلکہ ڈاکٹر محمد محمد مرسی عیسیٰ العیاط ہے، محمد مرسی جو آج کل عمر قید اور سزائے موت کا عدالتی فیصلہ سننے کے باوجود جیل کی کال کوٹھری میں روحانی سائنس کے ’’مزے‘‘ لے رہا ہے۔
اگرچہ محمد مرسی مصر کے پہلے منتخب صدر تھے تاہم اُنکے اقتدار میں آنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر مخالفانہ مظاہرے شروع ہوگئے،اور یوں جولائی 2013 میںہونے والے مظاہروں کے بعد فوج نے مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ، اخوان المسلمون پر پابندی عائد کردی اور اخوان کے ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ایک جانب اخوان کے گرفتار کارکنوں کو جیلوں میں ایذائیں پہنچائی جانے لگیں تو دوسری جانب گرفتار او ر مفرور کارکنوں کیخلاف مقدمات چلاکر سزائیں سنانے کا عمل بھی شروع کردیا گیا۔اب حال ہی میں مصر کی ایک عدالت نے سابق صدر محمد مرسی کو بھی موت کی سزا سنادی ہے، محمد مرسی کو اس سے قبل 20 سال قید کی سزا الگ سے سنائی جا چکی تھی، جسکے بعد سے پوری دنیا میں مصر میں انصاف کے قتل پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سماعت پر صرف ایک گھنٹہ صرف ہوا اور وکیل دفاع کو اپنا کیس پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا‘‘۔اسی عدالت نے گزشتہ مارچ میں 529 افراد کو موت کی سزا سنائی تھی جس میں سے اگرچہ 492 افراد کی سزا کو واپس لیکر بیشتر کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا، لیکن اس سارے عمل نے انصاف کی شفافیت پر ہزاروں سوال کھڑے کردیے تھے۔ اس سے قبل گزشتہ برس اپریل میں ایک مصری عدالت نے اخوان المسلمین کے مرشد عام محمد بدیع سمیت 683 افراد کو سزائے موت سنائی تھی،یہ سزائیں معزول صدر مرسی کو ہٹائے جانے کے بعد ملک میں بحرانی صورتحال پیدا ہونے اور کشیدگی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے مقدمے میں سنائی گئی ۔مصری دارالحکومت قاہرہ کے بالائی علاقے منیا کے ایک جج نے تقریبا سات سو افراد کیلئے موت کی سزا سنائی جس پر نظر ثانی کیلئے مصر کے مفتیِ اعظم کے پاس بھیج دیا گیا ہے، اس کا حتمی فیصلہ جون کے آخر میں آ جائیگا۔
محمد مرسی پر جو الزامات لگائے گئے، وہ انتہائی بھونڈے الزامات تھے، مثال کے طور پر مرسی پر اپنے دور صدارت میں ایوان صدر کے باہر سال 2012ء میں اپنے حامیوں کو تشدد پر آمادہ کرنے اور اسکے نتیجے میں اُن مظاہرین کے قتل کا الزام لگایاگیا جو قاہرہ میں صدر کیخلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔مرسی پر بیرونی تنظیموں سے دہشت گردانہ عمل کیلئے ساز باز کرنے کا الزام بھی لگایا گیا، استغاثہ نے مرسی پر فلسطین کے حماس اور لبنان کے جنگجو گروپ حزب اللہ کیساتھ اتحاد کرنے کا الزام بھی لگایا۔صرف یہی نہیں بلکہ سال 2011ء میں صدر حسنی مبارک کیخلاف بغاوت کے دوران ایک جیل توڑنے کے عمل میں قید خانے کے افسروں کے قتل کا الزام بھی ہے اور سب سے بڑھ کریہ کہ محمد مرسی پر توہین عدالت کا الزام لگایا گیا۔محمد مرسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کیخلاف لگائے گئے الزامات کے محرکات سیاسی ہیں اور عدلیہ کو فوجی بغاوت کو قانونی جواز فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، خود محمد مرسی نے بھی الزامات اور عدلیہ کے فیصلے کو رد کیا ہے، لیکن سب سے اہم ردعمل حقوق انسانی کی تنظیم کی جانب سے آیا، جس نے ان تمام الزامات کو عقل کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
مصر میں اخوان کے گرفتار کارکنوں کو عقل کے منافی الزامات لگاکر صرف نام نہاد عدالتوں سے ہی سزائیں ہی نہیں دلوائی جارہیں بلکہ جیلوں میں قید کارکنوں کیساتھ انسانیت سوز سلوک بھی کیا جارہا ہے، حد تو یہ ہے کہ اِس انسانیت سوز سلوک پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس بھی چیخ اُٹھی ہے، تنظیم کی ایک رپورٹ کیمطابق ’’ مصر میں سال 2013ء میں فوجی بغاوت کے بعد جنسی تشدد میں اضافہ ہوا ہے، اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو شاید ہی پکڑا جاتا ہو اور جرم سے بریت کا یہ سلسلہ تمام طرح کے حزب اختلاف کو خاموش کرنے کا بے لگام سیاسی منصوبہ نظر آتا ہے، سکیورٹی اہلکار قیدیوں کیخلاف بڑے پیمانے پر جنسی تشدد کا استعمال کر رہے ہیں، عوامی مظاہروں کو ختم کرنے کیلئے بچوں اور خواتین کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے اور گرفتاری کے بعد خواتین اور لڑکیوں کوغیر اخلاقی جانچ کے علاوہ زیادتی اور بداخلاقی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے‘‘ رپورٹ کیمطابق سیکورٹی اداروں کے افسران خواتین مرد ، طلبہ اور انسانی حقوق کے کارکن قیدیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں‘‘۔مصر میں اس طرح کی سزائیں سنانے جانے اور ایذا رسانی کے تمام تر ہتھکنڈوں سے اگرچہ قبل مسیح کے فراعنہ کا دور لوٹتا محسوس ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود مصر کے عوام حقوق اور انصاف کیلئے ڈٹے ہوئے اور ناقابل شکست عزم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
قارئین کرام! ! عہدہ صدارت سے معزولی اور گرفتاری کے بعد مرسی کیخلاف مقدمہ شروع ہوا تو کسی نے مرسی سے جیل میں گزرتے شب و روز کی تلخیوں اور تکلیفوں کے بارے میں پوچھا کہ زندگی کے کٹھن اور مشکل ترین لمحات کیسے محسوس ہوتے ہیں؟ مرسی نے مسکراکر جواب دیا تھا ’’بچپن میں اسکول سے لیٹ ہوجاتا تو بابا جانی جلدی پہنچنے کیلئے اپنا گدھا دے دیتے تھے، گدھے پر بیٹھ کر اسکی ریڑھ کی ہڈی کی چبھن محسوس کرنا انتہائی تکلیف دہ تھا،کیونکہ وہ مادی علم کی جانب سفر تھا، لیکن اسکے بعد روح کی جانب سفر شروع کیا تو میرے لیے کچھ کٹھن ، تکلیف دہ اور مشکل نہیں رہا۔نحیف جسم کے ساتھ روح کی جانب سفر میں کال کوٹھری کا ننگا فرش، گدھے کی پیٹھ سے کہیںآرام دہ محسوس ہوتا ہے‘‘۔

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن