ملتان بلکہ پورے جنوبی پنجاب میں پی پی 196 ملتان کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے ٹاکرے کو انتہائی دلچسپی کے ساتھ دیکھا جارہاہے ملتان میں دونوں جماعتیں پہلے بھی مخدوم محمد جاوید ہاشمی کے قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کے بعد آمنے سامنے آچکی ہیں۔ جس میں تحریک انصاف کامیاب رہی تھی اور پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کی حمایت سے الیکشن لڑنے والے ملتان کے معروف سیاسی خانوادے ملک محمد عامر ڈوگر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تھے۔ اب سابق صوبائی وزیر جیل خانہ جات چودھری وحید ارائیں کو دو قومی شناختی کارڈ رکھنے کی پاداش میں نااہل قرار دئے جانے کے بعد دونوں جماعتیں پھر آمنے سامنے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان ”بلے“ پر الیکشن لڑ رہی ہے اور مسلم لیگ ن نے این اے 149 ملتان کے ضمنی الیکشن کی غلطیوں کوتاہیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ پی پی 196 ملتان کے ایک لاکھ 78 ہزار ووٹر آج اپنے فیصلے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ ضمنی الیکشن میں اگرچہ 14 امیدار ہیں تاہم پاکستان مسلم لیگ ن پاکستان تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی ‘ جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ اور مجلس وحدت المسلمین قابل ذکر ہیں۔ جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف جو خود کوملک کی تیسری قوت قراردیتے ہیں اس کی حقیقت بھی آج سامنے آنے والی ہے۔ اسی طرح مجلس وحد ت المسلمین جو اپنے حریف گروپ کی وجہ سے میدان میں آئی اسکی جانب سے انجینئر سخاوت علی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے حبیب انصاری اور مجلس وحد ت المسلمین کے انجینئز سخاوت علی کوئی خاص تاثر پیدا نہیں کر سکے۔ پیپلزپارٹی کی صورتحال ”مقابلہ تودل ناتواں نے خوب کیا“جیسا ہے ان کے امیدوار محمد حسین ارائیں کی حمایت میں سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی موسیٰ گیلانی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی لیکن حلقہ میں وہ جوش و خروش کی فضا قائم نہیں کر سکے جو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے پیدا کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم این اے رانا محمودالحسن کو مرکزی جمعیت اہلحدیث ‘ جمعیت علماءاسلام فضل الرحمٰن گروپ اور اہلسنت کے ایک دھڑے کی حمایت حاصل ہے۔ جماعت اسلامی کا معاملہ سب سے زیادہ دلچسپ رہا ۔ جماعت اسلامی کے اپنے ضابطوں کے مطابق جماعت اسلامی الیکشن نہ لڑ رہی ہو تو حمایت کا فیصلہ لوکل تنظیم کرتی ہے اور لوکل تنظیم نے مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا محمودالحسن کی حمایت کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ پھر جب عمران خان نے ملتان میں جلسہ عام سے خطاب کیا تو پارٹی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے جماعت اسلامی کے امیر سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور جماعت اسلامی کو لوکل تنظیم کی جانب سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کا شکوہ کیا۔ بعد ازاں ایک بیان جاری ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسی روز لاہور سے جماعت اسلامی کے ترجمان کا بیان بھی آ گیا کہ حمایت کا فیصلہ جماعت اسلامی کی لوکل تنظیم کا حق ہے۔ جماعت کے کارکنوں کا بھی کہنا تھا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اس قسم کا بیان دے ہی نہیں سکتے۔ البتہ مقامی تنظیم نے اس معاملے میں بیان بازی سے گریز کیا۔ اور یوں معاملے کو گول کرنے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جماعت اسلامی کے اس حلقے میں رہائش پذیر بیشتر ارکان راجپوت ہیں اور وہ رانا محمودالحسن کے حامی ہیں۔ جماعت اسلامی کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ حمایت کے اعلان سے قبل اس حلقہ کے تقریباً 80 ارکان سے رابطہ کیا گیا تھا اور بیشتر نے رانا محمودالحسن کے حق میں رائے دی تھی۔
حلقہ پی پی 196 میں جماعت اسلامی کھلم کھلا نہ سہی لیکن اسکے ارکان بہرحال رانا محمودالحسن کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔ عمران خان کے جلسہ عام سے خطاب کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ الیکشن کی صورتحال پلٹ جائے گی لیکن عمران خان کی الزام تراشیوں سے بھرپور تقریر نے وہ تاثر پیدا نہ کیا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ شرکاءجلسہ کی تعداد بھی حیران کن نہ تھی۔ الیکٹرانک میڈیا خالی کرسیاں اور عمران خان کے خطاب کے دوران شرکاءکا بڑی تعداد میں واپس جانے کے مناظر نے جلسہ عام کے مثبت نتائج منظر عام پر نہ آنے دئے۔ عمران خان کے جلسہ عام کے جواب میں حمزہ شہبازشریف نے 17 مئی کوجلسہ سے خطاب کرنا تھا وہ لاہور کے موسم کی خرابی کے باعث چند گھنٹوں کیلئے ملتان ائرپورٹ پر اترے تو مقامی تنظیم اور رانا محمودالحسن کے ساتھیوں نے جلسہ عام نہ کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا۔ پہلی وجہ ملتان میں شدید گرمی بتائی گئی دوسری وجہ جلسہ کے انتظامات کے باعث انتخابی مہم متاثر ہونے کے خدشات ظاہر کئے گئے۔ جلسہ عام پر اٹھنے والے اخراجات نے بھی جلسہ عام نہ کرنے کے مشورے کو تقویت دی۔
پھر چاروز روز قبل اچانک مخدوم جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا محمودالحسن کی نہ صرف حمایت کا اعلان کیا بلکہ انتخابی جلسوں سے خطاب بھی کیا اور پوری طرح متحرک نظر آنے لگے جس پر مخدوم شاہ محمود نے تبصرہ کیا کہ گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کی جانب سے سینیٹ کی خالی کی جانے والی نشست نے مخدوم جاوید ہاشمی سے رانا محمودالحسن کی حمایت کا اعلان کروایا ہے۔ معاملہ کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی کی حمایت نے حلقہ میں اچھا تاثر پیدا کیا ہے اور مسلم لیگ ن کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ مخدوم شاہ محمود اور مخدوم جاوید ہاشمی کے مابین 2012 ءمیں جو سیز فائر ہوا تھا وہ اب ختم ہو گیا ہے۔ دونوں مخدوم ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں۔ پی پی 196 مخدوم شاہ محمود کے حلقہ انتخاب میں واقع ہے اس طرح دونوں مخدوموں کے مابین ٹاکرا جاری رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنی ہی پارٹی کے رہنما رانا سجاد کو الیکشن سے دستبردار کروا کر رانا محمودالحسن کی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں اس کا فیصلہ آج ہی ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ ملتان کی آئندہ سیاست پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔
oo