برصغیر کے مسلمانوں اور قائدین کو مکمل ادراک تھا کہ 1945-46ء کے انتخابات پاکستان کی آزادی کیلئے فیصلہ کن ہونگے لہذا یہ انتخابات جیتنے کیلئے ہر حربہ اختیار کیا گیا البتہ ٹھوس اور مستند شہادتوں کیمطابق قائداعظم نے پیسے دیکر ووٹ خریدنے سے انکار کردیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین اور کارکنوں نے اسلام کو انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ گورنر پنجاب سربریٹنڈ گلینسی نے 27 اکتوبر 1945ء کی رپورٹ میں تحریر کیا کہ انبالہ ڈویژن میں مسلم لیگ کے حامی پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ پاکستان میں شرعی قوانین نافذ کیے جائینگے اور مقدمات کے فیصلے مسجدوں میں ہوا کرینگے۔ اشتیاق احمد: Punjab Partitioned Oxford Press 2012 صفحہ 85 گورنر گلینسی نے 2فروری اور 28فروری 1946ء کی رپورٹوں میں درج کیا کہ پیر مشائخ اور طلبہ قرآن لے کر پنجاب کا دورہ کررہے ہیں اور عوام سے کہہ رہے ہیں مسلم لیگ کا ووٹ اللہ کے رسول ﷺ کا ووٹ ہے جو لوگ مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دینگے وہ مسلمان نہیں رہیں گے۔ مسلم لیگ کے حامی ’’اسلام خطرے میں‘‘ کا نعرہ لگارہے ہیں۔ جہلم کے مقامی مولوی عباس علی شاہ مسلم لیگ کے اُمیدوار نے ایک انتخابی اشتہار شائع کیا ہے کہ انتخابی جنگ اسلام اور کفر کی جنگ ہے۔ دین کو بچانے اور آخرت کو سنوارنے کیلئے مسلم لیگ کو ووٹ دو۔ مسلم لیگ نے پنجاب میں مذہبی لہر پیدا کردی ہے یونی نیسٹ پارٹی اس لہر کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مسلم لیگ کی جیت کے امکانات روشن ہیں۔[اشتیاق احمد: صفحہ89]
مذہبی انتخابی لہر کے باوجود قائداعظم اپنے مؤقف پر قائم رہے جب انکے قابل اعتماد ساتھی مسلم لیگ کے فنانس سیکریٹری راجہ صاحب محمود آباد نے قائداعظم کی موجودگی میں ’’اسلامی ریاست‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تو قائداعظم نے انکو یہ اصطلاح استعمال کرنے سے روک دیا تاکہ عوام یہ تاثر نہ لیں کہ راجہ صاحب قائداعظم کے خیالات کی ترجمانی کررہے ہیں۔ The "Partition of India: C.H. Phillpe صفحہ 388 قائداعظم نے قرآن اور سنت کا گہرا مطالعہ کررکھا تھا۔ وہ نئی ریاست کی تشکیل اسلام کے سنہری اُصولوں اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر کرنا چاہتے تھے ۔ اقلیتوں کے حقوق پر وہ کسی صورت کمپرومائز نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے 11اگست 1947ء کے دستور ساز اسمبلی کے تاریخی خطاب میں اپنا مؤقف دو ٹوک الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’مذہب کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہوگا‘‘۔ قائداعظم دلیر، بے باک اور جرأت مند لیڈر تھے وہ آخری دم تک اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ البتہ اپنی رائے کو اسمبلی پر مسلط نہ کیا اور اراکین اسمبلی کو آئین بنانے کی آزادی دی۔ ان پر دبائو ڈالا گیا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی کو مذہبی امور کا مشیر بنایا جائے اور ظفر اللہ خان (احمدی) وفاقی وزیر خارجہ کو کابینہ سے نکالا جائے مگر قائداعظم نے دبائو میں آنے سے انکار کردیا۔ [لارنس زائرنگ: At the Crosscurrent of History صفحہ 58] غلام محمد اور چوہدری محمد علی نے قائداعظم کے 11اگست 1947ء کے خطاب کو دو قومی نظریہ کے منافی قراردیا اور اسکی اشاعت کو روکنے کی ناکام کوشش کی۔[اے جی نورانی:Jinnah's 11 August Speech, Criterion Quaterly June 2012]
مولانا مودودی نے مولانا شبیر احمد عثمانی رکن دستور ساز اسمبلی کے ساتھ مل کر تحریک شروع کی کہ پاکستان کا آئین اس اُصول پر بنایا جائے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور ریاست کو خدا کی منشا کے مطابق چلایا جائیگا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد لیاقت علی خان نے مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کردی جس پر تفصیلی مباحثہ ہوا۔ اقلیتوں کے نمائندوں اور سیکولر ارکان اسمبلی نے قرارداد مقاصد کو قائداعظم کے نظریات سے انحراف قراردیا۔ اراکین اسمبلی کی اکثریت نے اس قرارداد کی منظوری دے دی چنانچہ قرارداد مقاصد آئین کی اساس اور بنیاد قرار پائی۔ قرارداد کیمطابق اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا اور عوام کے منتخب نمائندوں کو حق حکمرانی مقدس امانت کے طور پر دیا گیا۔ جمہوریت، حریت، مساوات اور انصاف کے اُصولوں کو ریاست کی بنیاد قرار دیا گیا۔ اتفاق کیا گیا کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائیگا کہ وہ قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کیمطابق اپنی زندگیوں کو ترتیب دے سکیں۔ قرار پایا کہ اقلیتیں آزادی کیساتھ اپنے مذہبی عقیدوں پر قائم رہ سکیں گی اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں گی۔ قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد پاکستان کی مذہبی قوتیں مضبوط ہوگئیں اور قرارداد مقاصد کی صورت میں انکے ہاتھ میں ایک ہتھیار آگیا جس کو استعمال کرکے مذہبی جماعتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانا شروع کردیا۔
1970ء کے انتخابات کے دوران پی پی پی اور مذہبی جماعتوں کے درمیان نظریاتی معرکہ لڑاگیا۔ پی پی پی نے سوشلزم اور روٹی کپڑا مکان کے نام پر یہ معرکہ جیت لیا۔ سقوط ڈھاکہ نے متفقہ آئین کیلئے حالات پیدا کردئیے۔ پی پی پی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اکثریت کی بنیاد پر پی پی پی کے منشور کے مطابق آئین تشکیل دے سکتے تھے مگر انہوں نے تاریخ کا درست ادراک کرتے ہوئے حب الوطنی کے جذبے سے متفقہ آئین کا فیصلہ کیا ان کو پورا شعور تھا کہ 1956ء اور 1962ء کے آئین نہیں چل سکے تھے لہذا ایک ایسے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت تھی جو پوری پاکستانی قوم کی امنگوں کا عکاس ہو۔ آئین سازی انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ ملک دولخت ہوچکا تھا اور صوبے خودمختاری کا مطالبہ کررہے تھے۔ مذہبی جماعتیں قرارداد مقاصد پر زور دے رہی تھیں جبکہ پی پی پی کا سوشلسٹ گروپ سوشلزم پر مبنی آئین بنانے کیلئے دبائو ڈال رہا تھا۔ بحث و مباحثہ اور مشاورت کے بعد 1973ء کے آئین پر اتفاق رائے ہوگیا۔ 1973ء کے آئین کو مجموعی طور پر ایک اسلامی، فلاحی اور وفاقی آئین قراردیا جاسکتا ہے۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل نمبر 1اور نمبر 2میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسلام کو ریاست کا مذہب قراردیا گیا اور قرارپایا کہ قرارداد مقاصد آئین کا حصہ ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 3میں سوشلزم کے بنیادی اُصول کو شامل کیا گیا جس کیمطابق قرارپایا کہ ’’ریاست استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اُصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا جائیگا اور ہر کسی کو اسکے کام کیمطابق معاوضہ دیا جائیگا۔
آئین کا آرٹیکل نمبر 31قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قراردیتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 34زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی شرکت یقینی بنانے کے بارے میں ہے۔ آرٹیکل نمبر 36اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے جبکہ آئین کا آرٹیکل نمبر 37مفت لازمی تعلیم ، سستے اور فوری انصاف اور حکومتی اختیارات کی مرکزیت کے خاتمے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 38عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کی ضمانت دیتا ہے۔ 1973ء کے متفقہ آئین کے بعد اسلام اور سیکولرازم کی بحث ختم ہوجانی چاہیئے تھی کیونکہ یہ آئین اسلام کے سنہری اُصولوں، اخلاقی اقدار اور سیکولرازم کے بنیادی تقاضے اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ افسوس آئین پر صدق دل اور خلوص نیت سے عملدرآمد کامطالبہ کرنے کی بجائے سیکولر لفظی بحثوں میں اُلجھے ہوئے ہیں جبکہ اسلام پسند، مذہبی جماعتیں اسلام آباد پر قبضہ کرنے کی آرزومند ہیں۔ پاکستان کے کتنے سیکولر عملی طور پر انسانیت کے اعلیٰ اُصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر شعبے میں منافقت عروج پر ہے۔ میری عاجزانہ رائے ہے کہ اگر ہم اپنے آئین پر بلاتفریق عملدرآمد شروع کردیں تو پاکستان حقیقی معنوں میں ایک جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ چونکہ 1973ء کے آئین کے درجنوں آرٹیکلز پر انکی روح کے مطابق عمل نہیں ہورہا اس لیے پاکستان مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے جن سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ قرآن اور سیرت کے آفاقی اُصولوں اور متفقہ آئین کے تمام آرٹیکلز پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے اور فکری بحثوں پر وقت ضائع نہ کیا جائے۔ میرا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے۔ مطالعہ کے دوران جو تاریخی حقائق سامنے آتے ہیں دیانتداری کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھ دیتا ہوں جن سے اختلاف کی گنجائش اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔
1946کے انتخابات، قرارداد مقاصد، 1973کا آئین
May 21, 2016