ارکانِ پارلِیمان کی مَن خواہ ۔تَن خواہ؟

پاکستان کا نظام کیسے درست کِیا جائے؟ اِس مسئلے پر ہر صاحبِ علم و دانش پریشان ہے ۔ ملک میں 250 سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہیں اور ہر جماعت میں اُس کے سربراہ سمیت ایک سے بڑھ کر ایک صاحبانِ علم و دانش ۔ اُن میں یقینا کچھ مخلص بھی ہونگے ۔

” نظر باز ادارے کی ضرورت؟“
پختونخوا ملِی عوامی پارٹی کے سربراہ جناب محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی کے ایوان میں تجویز پیش کی ہے کہ ” ملک کو (Corruption Free) بنانے کے لئے پارلیمنٹ، عدلیہ اور مسلح افواج سمیت تمام اداروں پر نظر رکھنے کے لئے ایک (اور) ادارہ بنایا جائے“۔ جنابِ اچکزئی کہتے ہیں کہ ” پارلیمنٹ اِس سلسلے میں ایک قرارداد منظور کرے کیونکہ کوئی بھی ادارہ احتساب سے بالا تر نہیں ہے “ لیکن اچکزئی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ مجوزہ ” نظر باز ادارے“ کے چیئرمین اور اُس کے ارکان کا تقرر کون کرے گا؟ اور اُن پر نظر کون رکھے گا؟۔ ہندو دیو مالا کے مطابق وِشنو دیوتا کے اوتار اور قدیم ریاست ایودھیا کے راجا ” بھگوان رام“ نے اپنی ریاست کے ہر ادارے/ا فراد پر نظر رکھنے والے ” نظر باز“ ملازم رکھے ہوتے تھے جنہیں” گُپت چر“ کہا جاتا تھا ۔ ہر گُپت چَر اپنی خفیہ رپورٹس براہِ راست راجا رام کو بھیجتا تھا اور راجا اُس کے مطابق فیصلے کرتا تھا۔
ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں نے بھی ہر اہم شہر میں ” پرچہ نویس“ رکھے ہُوئے تھے جو اپنی خفیہ رپورٹس براہِ راست بادشاہ کو بھجواتے تھے۔ پاکستان میں بادشاہت نہیں ہے ۔ کیا ہماری ” بدترین جمہوریت“ میں گُپت چروں ، پرچہ نویسوں یا ” نظر باز“ ادارے کے ارکان کو کسی منتخب وزیراعظم یا با اختیار صدر کے ماتحت اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دینے کا موقع مِل سکے گا؟ اور اگر وزیراعظم یا صدر اور اُس کے خاندان کے افراد کا تعلق غیر قانونی آف شور کمپنیوں سے ہوا تو؟۔ محترم اچکزئی صاحب! جب تک بدترین جمہوریت جاری و ساری رہے گی ، کوئی بھی ” نظر باز ادارہ “ اعلیٰ عدلیہ اور خاص طور پر پاکستان کی مسلح افواج کا کیا بگاڑ لے گا؟
مولانا فضل اُلرحمن بھی لندن میں؟
ایک خبر کے مطابق ”کل(22 مئی کو) جنابِ وزیراعظم میڈیکل چیک اپ کے لئے لندن تشریف لے جائیں گے اور مولانا فضل اُلرحمن بھی اُن کے ہمراہ ہونگے اور وہ لندن میں مقیم سابق صدر آصف علی زرداری اوروزیراعظم نوازشریف میں مصالحانہ کردار بھی ادا کریں گے“۔ کیا مولانا صاحب بھی اپنا میڈیکل چیک اپ کرائیں گے؟ خبر میں نہیں بتایا گیا۔اگر جنابِ وزیراعظم مولانا فضل اُلرحمن کو لندن لے جائیں تو کیا قیامت آ جائے گی؟۔ ممکن ہے لندن میں قیام کے دوران مولانا فضل اُلرحمن چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کر کے جنابِ وزیراعظم کو کوئی قیمتی مشورہ دے سکیں ؟۔
اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے پِیر صاحب پِیر محمد اِبراہیم عُرف اِبرا کو اپنے ساتھ نیویارک لے گئی تھیں ۔ جنابِ زرداری اپنے پِیر صاحب پِیر اعجاز شاہ کو کبھی لندن یا نیویارک لے گئے ہیں یا نہیں؟ ۔ مَیں نے پِیر صاحب سے نہیں پوچھا حالانکہ لاہور میں ” نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید کے دفتر میں میری اُن سے دو بار ملاقات ہو چکی ہے۔ سرسیّد احمد خان لندن کے دورے پر گئے تھے تو اُن کے ایک مُرید نے ” مسافرانِ لندن“ کے نام سے ایک کتاب لِکھی تھی۔ ممکن ہے کہ مولانا صاحب کے فرمان کے مطابق جناب محمد اکرم درانی اِس قِسم کی کوئی کتاب لِکھ دیں ۔
ارکانِ پارلِیمان کی مَن خواہ ۔تَن خواہ؟
19 مئی کو گلگت/ بلتستان میں جنابِ وزیراعظم نے خطاب کرتے ہُوئے مختلف نیوز چینلوں پر دُور دراز کے لوگوں کو نوید دی کہ ” پاکستان میں ترقی کا عمل شروع ہو چکاہے “۔ لوگ حیران تھے کہ اِس سے پہلے جو ” عمل“ ہو رہا تھا کیا وہ ” ترقی کا عمل نہیں تھا؟“ ۔ اگر قوم بحیثیت مجموعی ترقی نہیں کر سکی تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے ۔ پانامہ لِیکس کے انکشافات کے بعد قوم کو پتہ چلا کہ ترقی کے تو کئی دروازے ہوتے ہیں۔ ” کُھل جا سِم سِم“ کہہ کر چُھپائے گئے خزانوں کو حاصل کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ پانامہ لِیکس کے انکشافات سے یہ فائدہ ضرور ہُوا کہ وفاقی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں محبت بڑھ گئی ہے اور کہیں کہیں تو ملزمان کو سزا دلوانے سے پہلے علاّمہ اقبالؒ کی اِس ہدایت کے مطابق اُن سے عمل کرتے ہُوئے اُن کی ترقی کا راز بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ....
”پُوچھ اُن سے ، جو چمن کے ہیں ، دیرینہ راز دار“
19 مئی کو ہی چشمِ فلک نے حکومت اور اپوزیشن کے ارکانِ اسمبلی میں ۔” مَیں تے ماہی اِنج مِل گئے جِیویں ٹِچّ بٹناں دی جوڑی “ کے بے مثال اتحاد کے مناظر دیکھے ۔ ہوا یوں کہ قومی اسمبلی کے ارکان نے (متفقہ طور پر ) اور بلند ترین آوازوں کے ساتھ چند ہی منٹ میں ارکانِ پارلیمان کی تَن خواہ 3 گُنا اور الاﺅنسز 10 گُنا بڑھا لئے۔ وہ طعن و تشنیع سے ایک دوسرے کا کلیجہ چھلنی کرنے کے بجائے گِلہ کر رہے تھے کہ
” تُو ہی ناداں،چند کلیوں پر ، قناعت کرگیا
ورنہ گُلشن میں ، علاجِ تنگئی داماں بھی تھا“
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق بھی پھولے نہیں سماں رہے تھے ۔ وہ مزید ” ہر دلعزیز“ ہوگئے البتہ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی اُن کے آڑے آ رہے ہیں ۔ کیا لندن یا دُبئی سے پیغام آنے تک؟ ” تَن خواہ “ یعنی جِسم کی ضرورت کے مطابق طلب کی ہر انسان کو ضرورت ہوتی ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ارکانِ پارلیمان کی ” بالائی آمدن“ ہوتی ہے یا نہیں؟۔ زیادہ تر لوگوں کا تو یہی دعویٰ ہے کہ وہ ....
” دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں!“
حضرت اکبر الہ آبادی نے بالائی آمدن کو ” صنعت و حرِفت“ قرار دیتے ہُوئے کہا تھا
”کچھ صنعت و حرفت پہ بھی لازم ہے توجّہ
آخر یہ گورنمنٹ سے تنخواہ کہاں تک“
اُس دَور میں بالائی آمدن کی ” صنعت و حرفت“ کا فروغ پذیر تھی اور زیادہ تر افسران بالا بالائی آمدن پر گزارے کرتے ہُوئے اپنی ساری تنخواہ اپنی بیوی/ محبوبہ کے ہاتھ میں تھما کر اُس کا حساب نہیں پوچھتے تھے ۔ بقول حضرتِ اکبر الہ آبادی۔
” خرچ کی تفصِیل پُوچھوں گا ، نہ مانگوں گا حساب
لے لے وہ بُت ، کُل مری تنخواہ، جو چاہے کرے“
ارکانِ پارلیمان کی تنخواہ 3 گُنا اور الاﺅنسز 10 گُنا کرنے سے انہیں سکون سے قوم کی خدمت کا موقع مِلے گا اور وہ جب چاہیں گے اتفاقِ رائے سے 1973ءکے ” متفقہ آئین“ میں ترمیم کرلِیا کریں گے۔ 19 مئی کو آئین میں 22 ویں ترمیم کتنی پھرتی سے منظور کرلی گئی؟۔ علاّمہ اقبالؒ پاکستان کی ہر دَور کی پارلیمان کے ہر رکن کو قوم کے ہر فرد کی طرف سے پہلے ہی یہ پیغام دے گئے تھے کہ ....
” تُو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن ، اپنا تو بن؟“
کم از کم مَیں تو ارکانِ پارلیمان کی ” مَن خواہ “ ( یعنی خواہش کے مطابق ) ” تَن خواہ “ بڑھنے سے بہت خوش ہُوں۔ مَیں بھلا اُن سے حسد کیوں کروں؟۔ اُن سے حسد پاکستان کے وہ 60 فی صد لوگ کریں گے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں یا وہ لوگ جنہیں اپنے یا اپنے رشتہ داروں کے نام سے آف شور کمپنی بنا کر باہر کے ملکوں میں ناجائز دولت لے جانے کا فن نہیں آتا۔

ای پیپر دی نیشن