اقتصادیات علامہ اقبال کی خاص توجہ کا موضوع ہے۔ نظم و نظر میں انہوں نے اس موضوع پر جابجا اظہار خیال کیا ہے۔1903ء میں اردو زبان میں علم الاقتصاد کے عنوان سے ایک مستقل کتاب تحریر کی جو اردو میں موضوع پر پہلی کتاب ہے۔ ابتدا ہی سے یہ ان کی خواہش تھی کہ مسلمان عزت و احترام کی زندگی بسر کریں، کسی کے محتاج نہ ہوں اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں کیونکہ شخصیت کو جو چیز کمزور کرتی ہے وہ دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا ہے۔
اقبال کے نزدیک ”غریبی قوائے انسانی پر بہت برا اثر ڈالتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات انسانی روح کے مجلاً آئینے کو اس قدر زنگ آلودہ کردیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود و عدم برابر ہوجاتا ہے۔“ اقتصادی آزادی کے بغیر کوئی قوم سیاسی آزادی سے بہرہ مند نہیں ہو سکتی۔ اقتصادی قوت ہی دراصل سیاسی قوت کی اساس ہے اس قوت کو حاصل کرنے کیلئے صنعت کو حتی الامکان فروغ دیا جائے تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوسکے۔
اقبال صنعت کی اہمیت کے حوالے سے کہتے ہیں ”جاپانی قوم آج دنیا کی سب سے مہذب اقوام میں شمار ہوتی ہے اور محققین مغرب اس کی رفتار ترقی کو دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں۔ جاپان نے رموز حیات کو سب سے زیادہ سمجھا ہے۔ اس واسطے یہ ملک دنیوی اعتبار سے ہمارے لیے سب سے اچھا نمونہ ہے۔“کسی بھی قوم کے اقتصادی استحکام کا دوسرا ذریعہ زراعت ہے۔ ”الارض للہ“ کی رو سے زمین اللہ کی ملکیت ہے۔ کسی حکومت یا فرد کی ملکیت نہیں۔ مسلمان صرف اس کا امین ہے۔ چنانچہ اقبال جاگیر داری اور زمینداری نظام کے مخالف ہیں جو فرد کے استحصال کا باعث بنتے ہیں۔ کاشتکار زمین کو بطور امانت اپنے پاس رکھ سکتا ہے جب تک وہ کاشت کرتا ہے یا بغیر استحصال کاشت کراتا ہے۔ اقبال نے فرمایا:
دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں
تیسر اہم ذریعہ معدنی وسائل ہیں ۔ بڑی طاقتیں کمزور قوموں کے ایسے وسائل پر عموماً قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان پر تسلط کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ اس بارے میں علامہ اقبال کی نصیحت یہ ہے کہ ان طاقتوں کو اپنے وسائل حیات سے دور رکھا جائے:
از فساد اوا گر خواہی اماں
اشترانش راز حوض خود براں
انیسویں صدی میں سرمایہ داری نظام نے ایک دنیا کو اپنے پنجہ استبداد میں پکڑ لیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اس نظام کیخلاف اشتراکی نظام معرض وجود میں آیا۔ اگرچہ بظاہر یہ اقتصادی نظام ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن اصل میں دونوں ایک ہی تھے۔ دونوں کا ہدف کمزوروں کا استحصال تھا۔ علامہ اقبال نے ان اقتصادی نظاموں کے بارے میں نہایت بصیرت افروز خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مکمل طور پر مسترد کیا اور صرف اسلامی اقتصادی نظام کو عالم انسانی کیلئے مفید اور قابل عمل قرار دیا۔ انہوں نے فرمایا:
” سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کرجائے تو دنیا کیلئے ایک قسم کی لعنت ہے۔ لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اسو قت کو خارج کردیا جائے۔ جیسا کہ بولشو یک تجویز کرتے ہیں۔
قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کیلئے قانون میراث اور زکوة وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے۔ روسی بالشوزم یورپ کی ناعققبت اندیشی اور خود غرض سرمایہ داری کےخلاف ایک زبردست ردعمل ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے۔ شریعت حقہ اسلامیہ کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کرسکے اور اس مدعا کے حصول کیلئے میرے عقیدے کی روسے وہی راہ آسان اور قابل عمل ہے جس کا انکشاف شاعر علیہ السلام نے کیا ہے۔
”اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے اور ہمارے لیے ایک ایسا نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا، ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرا عقیدہ ہے ” فاصبسھم بنعمتہ اخوانا“ میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے اخوان نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں۔“وراثت اور زکوة کا مقصد یہ ہے کہ دولت صرف اغنیاءتک محدود نہ رہے بلکہ زیادہ سے زیادہ ہاتھوں میں گردش کرے۔ قرآن مجید میں مسلمانوں پر یہ فرض کیا گیا کہ وہ فلاح عامہ کیلئے جو مال و دولت ضرورت سے زاید ہے اسے خرچ کریں۔ مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ وہ خدا کی راہ میں کیا خرچ کریں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”قل العفو“ یعنی جو ضرورت سے زیادہ ہے وہ خرچ کریں۔ اقبال کے نزدیک شریعت کی غایت الغایات یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی فرد کسی دوسرے فرد کا محتاج نہ رہے۔
کس نگر د دور جہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبیں این است و بس
اقتصادیات علامہ اقبال کے نقطہ نظر سے
May 21, 2017