پاکستانی قوم کے نزدیک موجودہ حالات میں تبدیلی نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ دنیا جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ہمارا پیچھے رہ جانا لمحہ فکریہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں برسر اقتدار جماعت ن لیگ اور سابق برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کا گرتا ہوا گراف اسی بدولت ہے کہ ملک کے معاشی حالات ہر گزرتے دن بدسے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، افسوس تو یہ ہے کہ ان برے حالات کی ذمہ داری لینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہے۔ ن لیگ سے موقف جاننے کی کوشش کی جائے تو وہ کہتے ہیں پاکستان اگلے 5سالوں میں ترقی کے زینے طے کرتا ہوا دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن جائے گا، پیپلز پارٹی سے پوچھا جائے کہ انہیں بھی تو گزشتہ 5سال موقع ملا تو انہوں نے کیا کیا، وہ فرماتے ہیں کہ جتنی پیپلزپارٹی کے دور میں ترقی ہوئی شاید ہی کسی دور میں ہوئی ہو گی۔ اب گزشتہ تیس سالوں میں ملک میں جمہوریت کے نام پر جو لوٹ مار ہوئی اسے جاننے کے لیے کسی سائنس کی ضرورت نہیں بلکہ ملکی و غیر ملکی قرضوں کا فرق چیک کر لیں کہ آج دوسوارب ڈالر ملکی و غیر ملکی قرضوں کے گرداب میں پھنس چکے ہیں جبکہ اس سے زیادہ کی رقم ہمارے ان نام نہاد سیاستدانوں کے غیر ملکی بینک اکاﺅنٹس میں پڑی ہوئی ہے۔ پھر آپ یہ دیکھیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف 1985ءمیں سیاست میں آئے تو اُس وقت شریف خاندان کا شمار پاکستان کے بڑے 100خاندانوں میں بھی نہیں ہوتا تھا، مگر اقتدار میں آنے کے بعد اس اس قدر ترقی ہوئی کہ آج یہ پاکستان کا دوسرا امیر ترین خاندان کہلاتا ہے۔ یہی حال پیپلزپارٹی کے قائدین کا ہے، بس دونوں میں فرق اتنا ہے کہ ”امیری“ کی رینکنگ میں ایک دوسرے کے آگے پیچھے رہتے ہیں۔
ان حالات میں ملک کے عوام کھربوں ڈالر کے مقروض ملک کے باسی بن چکے ہیں، انہیں ان سیاستدانوں کی بدولت دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا ہے، کسی ملک میں اپنی شہریت دکھانے سے انہیں ڈر لگتا ہے، ہمارا پاسپورٹوں دنیا کے بدترین پاسپورٹوں میں شامل ہو چکا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کے کپڑے اتروا کر تلاشی لی جاتی ہے، اور قائداعظمؒ کے پاکستانیوں کو دکھایا جاتا ہے کہ دیکھو! اس ”پاکستان“ کے بنانے کا تمہیں کیا فائدہ حاصل ہوا۔ مجھے اکثر بیرون ملک سفر کا موقع میسر آتا ہے تو 99فیصد لوگ پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں کو جان سے مارنے تک غصے سے بھرے ہوئے ملتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ وہ بیرون ملک میں رہ کر ”پاکستان“ کو فیس کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ تبدیلی چاہتے ہیں کہ اُن کا ملک بھی ترقی کرے، اُن کے ملک میں بھی امن و شانتی ہو، اُن کے ملک میں بھی کاروبار کی وسعتیں پھیلیں۔
اسی اثناءمیں یہ بھوکے ننگے عوام”تبدیلی“ کی راہ دیکھتے ہیںکہ شاید کوئی مسیحا، انقلابی یا کوئی جذباتی سا لیڈر اس ملک کو کرپٹ سیاستدانوں سے نجات دلا سکے۔لیکن افسوس عوام کو ہر طرف نااُمیدی سی نظر آتی ہے، اب تو اکثر و بیشتر ایسا لگتا ہے جیسے دنیا کی ہر برائی وطن عزیز میں آچکی ہے، اور ہاں یہ نا اُمیدی نہیں ہے بلکہ زمینی حقائق ہیں جن سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ اور جو قومیں زمینی حقائق سے منہ موڑ کر سب اچھا ہے کی آوازیں لگاتی ہیں وہ منہ کے بل زمین پر پڑی رہتی ہےں اور دنیا انہیں روند کر گزر جاتی ہے۔ ایسے میں عوام اگر تحریک انصاف کی طرف دیکھتے ہیں تو اسے اس قدر متنازع بنا دیا گیا ہے کہ ان دوبڑی سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیائی ٹیمیں جن پر سرکاری فنڈز سے کروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں دن رات تحریک انصاف کا خوف دل میں بٹھائے کام کر رہی ہیں۔ کہ اگر یہ جماعت اقتدار میں آکر عوام کی بھلائی کے کام کرنے لگ گئی، دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر ہونا شروع ہوگیا، معاشی اصلاحات کارگر ثابت ہوگئیں، اور ہمسایہ ممالک سے مثالی تعلقات قائم ہوگئے تو ان دونوں سیاسی جماعتوں کی ملک سے چھٹی ہوجائے گی۔ اسی خطرے کے پیش نظر اس جماعت پر کبھی اسٹیبلشمنٹ کی بی پارٹی کا الزام لگایا جاتا ہے توکبھی لٹیروں کی پارٹی کا خطاب ملتا ہے لیکن الیکشن 2018ءمیںاگر یہ پارٹی جیت گئی تو پاکستان کی سیاسی قیادت میں بدلاﺅ ضرور دیکھنے کو ملے گا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد کے مسائل سے نبر د آزما ہونے کے لیے عمران خان کو آج سے ہی اپنی ٹیم اناﺅنس کرنا ہوگی کہ وزیر خارجہ کون ہوگا، وزیر خزانہ کون ہوگا؟ تاکہ ہوم ورک شروع کیا جاسکے، معاشی اصلاحات کیسے کی جائیں گی، اگر وہ ٹورازم کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے زمینی سطح پر کونسے کام کریں گے۔ فیز1، فیز 2، فیز 3ان سب کو پبلک کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تحریک انصاف کو چلنے نہیں دیں گی۔ کیوں کہ وہ پہلے ہی سے اس نامعقول ایجنڈے پر الیکشن میں جا رہی ہیں کہ یہ الیکشن اگر تحریک انصاف جیت گئی، یا بعض کے نزدیک کہ اس دفعہ مرکز میں تحریک انصاف ہی حکومت بنائے گی تو عمران خان حکومت کرنے میں ناکام ہو جائے گا،اور حکومت ڈیڑھ سال بعد خود بخود ٹوٹ جائے گی، پھر انتخابات ہوں گے۔ جس میں ایک بار پھر ن لیگ یا پیپلزپارٹی حکومت کر رہی ہوں گی، اور اس حوالے سے آصف علی زرداری کا یہ بیان بھی اہم ہے کہ یہ الیکشن تحریک انصاف کا ہے، اور میں ابھی الیکشن کے لیے تیار نہیں ہوں،کیوں کہ بہت سے معاملات میں ابھی ہم موقع کی مناسبت سے فیصلے کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آصفہ اور بلاول بھی پارلیمانی سیاست کو سمجھ چکے ہوں گے ، تب میرے لیے یہ آسان ہوگا کہ پیپلز پارٹی ملک میں اقتدار میں آسکے۔ زرداری مزید کہتے ہیں کہ اُس وقت لوگ پی ٹی آئی کی ناکامی کے بعد اس سے مایوس ہو چکے ہوں گے ، اور پھر مارچ 2020ءمیں جو الیکشن ہوں گے، ہم اس میں جیتیں
گے، اور حقیقت میںہم انہی کی تیاری کر رہے ہیں۔ جبکہ حالیہ الیکشن میں صرف ایک ٹیسٹ میچ کے طور پر جا رہے ہیں، یعنی حالیہ الیکشن ہمارے لیے ایک ٹرائل میچ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔
جبکہ آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن یہ سمجھتی ہے کہ یہ الیکشن جیسے بھی ہوں ،تحریک انصاف یا اُن کے علاوہ کوئی بھی جماعت اقتدار میں آئے ، حکومت کی جیسی بھی کارکردگی ہو، ہم نے سڑکوں پر ہی رہنا ہے، اور الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرنا، مسلم لیگ ن اُن کے خلاف انٹرنیشنل پراپیگنڈہ کرے گی کہ یہ دھاندلی سے الیکشن جیتا گیا ہے اور اس میں بھرپور ہاتھ اسٹیبلشمنٹ کا رہا ہے۔ اور نواز شریف سمیت اُن کی ٹیم اسی سیاست کی تیاری کر رہے ہیں۔ بادی النظر میں اسی لیے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور نواز شریف دونوں اپنی اپنی ٹیم کے ساتھ تحریک انصاف کی ناکامی کے لیے بھرپور اپنی توانائیاں بروئے کار لائیں گے۔ یہی اُن کا سیاسی ایجنڈا ہے، جس سے بچنے کے لیے تحریک انصاف کو مزید متحرک ہونا ہوگا، مخالفین انہیں جنوبی پنجاب محاذ کو متنازع بنا کر سیاست میں شکست دے سکتے ہیں، انہیں مہنگائی کا رونا رو کر اور معاشی حالات کی ذمہ داری عمران خان پر ڈال کر انہیں دباﺅ میں لا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایشوز کو بنیاد بنا کر ”تبدیلی“ کو روک سکتے ہیں۔ لہٰذامیری دست بستہ گزارش ہے کہ ابھی سے ان ایجنڈوں پرکام کیا جائے، تمام معاملات تحریک انصاف کے ذہنوں میں ہونے چاہیےں، کیوں کہ احتساب کی پکڑ میں آنے والوں کے پاس دوسروں کی کردار کشی کرنے کے علاوہ کوئی چارا نہیں بچا۔