ریاست کا کون حسن اور رومانس کون؟

بات کرتے ہیں تو دور تلک جاتی ہے، نہ کریں تو دل میں نشتر کی طرح پیوست سی ہوئے جاتی ہے:
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے!تجھے کس بات پہ رونا آیا
لگتا ہے پچھلی صدی کی 80 اور 90 کی دہائیاں ہوں جیسے وہی لفظ ، وہی بیانئے جو کبھی پیپلزپارٹی کے ہوا کرتے تھے، وہ آج کل ن لیگ کے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ کہ، اس دور کے جو جو تجزیہ کار تاحال سلامت ہیں ، جو کبھی ایسی لفاظی کو ملکی مخالفت، بھارت نوازی، سیکولرازم اور جانے کیا کیا قرار دیتے تھے، مگر آج وہ اس بیانئے یا رویے کو چونکہ و چنانچہ کے ساتھ درست اور قابل ہضم قرار دیتے ہیں۔ میں یقین کے ساتھ کچھ کہنے سے قاصر ہوں کہ، ہم نے گردش ایام سے سیکھا ہے اور بالغ نظری کے حامل ہوگئے ہیں یا پھر زندگی کی وہی ڈگر ہے، کہ کوا سفید ہے۔
اسی اور نوے کی دہائیاں عوام کو ستر کی دہائی کے بطن سے ملی تھیں۔ مجھے یوں بھی لگتا ہے کہ اسی اور نوے کے عشروں سے ہم نے نئی صدی میں ایسے ہی کچھ نہ سیکھا جیسے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد کے 2 عشروں سے ہم اسی اور نوے میں کچھ نہ سیکھ پائے۔ سیکھنے سکھانے کا عمل بھی زنجیری عمل ( چین ریکشن ) کی طرح ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو تحریک پاکستان کا حصہ یا اس کے عینی شاہدین تھے وہ رفتہ رفتہ کوچ کر گئے، ہمارے ہم عصروں اور ہم عمروں کو بالواسطہ اور ہمارے والدین کو بلاواسطہ ان کی آپ بیتی اور جگ بیتی معلوم تھی اور ہے۔ ذرا سوچئے! ہم نے کیا سیکھا اور کیا کیا؟ آج کے نوجوان کے استاد تو ہم ہیں، رہنما ہم، ماہر ہم، ظاہر ہم اور باطن ہم۔ بتائیے ہماری کارکردگی اور شراکت داری کیا ہے؟ معاملہ اطمینان بخش ہے کیا؟
وہ جو بات کرنا ضروری ٹھہرا وہ یہ کہ بحیثیت ڈیموکریٹ میں یہ سمجھا ہوں، مثبت اسٹیبلشمنٹ ریاست کا رومانس اور حقیقی جمہوریت ریاست کا حسن ہے، اور دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ تمام پائدار ترقی یافتہ ممالک اور بالخصوص امریکہ میں بھی، حسن اور رومانس کو ہم جا پایا ہے، تھوڑی سی تراش خراش کہیں ہوسکتی ہے، بات روس کی بھی کریں گے تو متذکرہ حسن اور رومانس آپ کو ضرور ملیں گے۔ چائنہ کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔ اگر کہیں وہ آئیڈیل ماڈل موجود ہے جس کا پرچار آج کل جاوید ہاشمی کررہے ہیں تو وہ وہاں ملے گا جہاں کے وزراءہی نہیں وزرائے اعظم بھی دامن پر لگنے والے ذرا سے داغ کے سبب مستعفی ہونا مقدم جانتے ہیں، وہاں پارٹی سسٹم انسٹیٹیوشنز کا درجہ رکھتا ہے، اور سیاست دان کسی نہ کسی کاز اور نظریہ سے جڑے ملتے ہیں ، محض چڑھتے سورج کے پجاری نہیں کہ نظریہ ضرورت کے تحت پورے مزے ایک جگہ لینے کے بعد پھر تیل اور تیل کی دھار دیکھی اور الیکشن سے ذرا قبل کوئی جنوبی پنجاب محاذ کا بہانہ بنایا یا بدین کی مرزا فیملی کی طرح سر پر قرآن رکھ کر کھائی قسمیں بھی بھول گئے یا پھر جھنگ کی بی بی بھروانہ اور صاحبزادوں کا ماڈل اپنا لیا۔ کوئی فاروق لغاری ہو یا جعفر لغاری وہ موسم کی ادا دیکھ کر بدلیں ، اور بولیں ہم نظریاتی ٹھہرے، اسے کوئی کم فہم مانے تو مانے، زود فہم نہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ، کبھی سیاستدان ، کبھی عدالتیں اور کبھی جرنیل یہاں نظریہ ضرورت کی ڈگر پر چلے اور کہتے یہ رہے کہ ہم نظریاتی ہیں۔ یہ عوام سے سنگین مذاق نہیں تو کیا ہے؟ سیاسی قبیلوں میں سے، روٹی کپڑا اور مکان سے لے کر ووٹ کو عزت دینے والوں تک، اور نیا پاکستان سے اسلام دینے والوں تک ، یہ سبھی کیا عوام کی محرومیوں اور امیدوں سے نہیں کھیلتے رہے؟ پھر آرمی اسٹیبلشمنٹ سے سویلین اسٹبلشمنٹ تک نے عوام کو خواب دیئے، کبھی تعبیر بھی دی؟ جمہوریت، آمریت اور اسٹیبلشمنٹ ، یعنی تینوں سے ثمرات گر سمیٹے تو صرف اشرافیہ نے!
ضرورت اس امر کی ہے کہ، کوئی تو ہو جو عوام کی وحشتوں کا ساتھی ہو۔ بڑے میاں صاحب جب آپ کا ارتقاءصدر ن لیگ سے قائد ن لیگ کے موڑ پر آ ہی گیا ہے تو یہ وقت نہیں مزاحمت کا۔ یہ وقت ہے انتخابی سیاست کا، کیا 1999 میں "قدم بڑھاو¿ نواز شریف عوام تمہارے ساتھ ہیں" والوں نے قدم بڑھایا تھا؟ کھیلنا آپ نے ہے جھیلنا آپ نے ہے! آج 2018 میں حالات بہتر ہیں، ابھی عوام آپ کے ساتھ ہیں۔ کیا کھینچ کھینچ کر لوگوں سے دامن چھڑانا ہے؟ یہ مریم اورنگزیب، یہ مفتاح اسماعیل، وہ مصدق ملک اور آصف کرمانی حتی کہ طلال بھی بہت ہیں، ہر حکومت کے لئے دستیاب ہیں مگر یہ چوہدری نثار علی خان جیسے ساتھی اور ملک حنیف آف گجرات جیسے کارکن روز نہیں ملتے، پھر لیڈری تو یہی ہے کہ پرویز رشید اور چوہدری نثار کو ساتھ بٹھائیں اور سنگ سنگ چلائیں۔ بیٹیاں سبھی کیلئے رحمت اور احساس کی اساس ہیں لیکن سیاست اور چودھراہٹ میں گھر کی خواتین کا ہر پل (اجی ہردم) اعصاب پر سوار رہنا کبھی کبھی اور کہیں کہیں احباب اور انتخاب سے دور کردیتا ہے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کسی ہینڈ میڈ دستکاری کا نام نہیں ، حالات اور وقت کی سینچی ہوئی سیاست کاری کا نام ہے ، بے نظیریں وقت بناتا ہے اور حالات ، ایسی ہستیاں شاید بنائے سے نہ بنیں! یہ چوہدری جعفر اقبال آف گجرات، شیخ روحیل اصغر، صدیق کانجو،۔۔۔۔۔۔۔ میڈیا سٹیٹ ایکٹر اور فیکٹر نہ سہی مگر سدا بہار انتخابی گھوڑے اور کوآرڈینیٹر ہیں۔
واضح رہے کہ، سات آٹھ دن قبل، قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر دفاع خرم دستگیر، مفتاح اسماعیل وغیرہ جب میاں نواز شریف کو ملے تو وہ سخت نالاں ہوئے، اور صاف کہہ دیا کہ "آپ لوگوں نے قومی سلامتی کونسل میں میری سبکی کرائی ہے، آپ کو کوئی خوف ہے تو مجھ سے اظہار لاتعلقی کردیں۔" غالبا اس نشست میں میاں شہباز شریف بھی موجود تھے۔ بہرحال حالات و واقعات کہتے ہیں کہ سردست انتخابی سیاست کارک کرکے ایک دفعہ پارٹی کو بچالیں اور پارلیمنٹ میں پہنچالیں۔ بعد کی بعد میں دیکھیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے پیپلزپارٹی پارٹی کا راستہ ہر دفعہ روکا، اسی کی دہائی کے آخری سال ہوں ، 90 کی دہائی ہو یا نئی صدی کے عشرے پیپلز پارٹی کیلئے ہمیشہ قدغن رہی، تاریخ گواہ ہے کہ بےنظیر بھٹو نے باوجود رکاوٹوں کے ریٹائرڈ جرنیلوں اور کرنیلوں کو دیگر پارٹیوں کی نسبت زیادہ ٹکٹ دئیے۔ کرپشن کا ڈھول پی پی پی کے گلے میں اپنی جگہ تاہم پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ ہی وہ واحد قوت تھی جس نے پیپلزپارٹی کو 1988، 1993 اور 2008 میں بطور خاص پنجاب میں عنان اقتدار سے دور رکھا پھر رفتہ رفتہ چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ آخر آصف علی زرداری بھی "اینٹ سے اینٹ بجانے" کے شوق کو ترک کرنے پر مجبور ہوگئے۔۔۔۔ میاں صاحب! پس وکٹ پر رہیں گے تو رنز کریں گے نا ! پاکستان کی جغرافیائی، خارجی، بھارت و افغانستان اور روس و چین کی ہمسائیگی اور نظریاتی نزاکتیں مختلف ہیں گویا ہاشمی جیسوں کا "حالیہ فارمولا" سودمند نہیں۔ ممبئی بیانیہ مہلک تھا ، مہلک ہے اور مہلک رہے گا سو نظرثانی کسی خودکشی کا پیش خیمہ بالکل دکھائی نہیں دیتی! فی الحال شہباز شریف کے دل مضطر اور مضطربانہ سیاست کو تقویت بخشیے، یہ درست ہے نواز سیاست ہی نہیں لیگ میں غالب ہے اور پردہ بھی۔ سمجھتے تو نئے نویلے الیکٹ ایبل انصافی بھی ہیں کہ، پی ٹی آئی کی زرخیزی کے پیچھے کاشتکاری کس کی ہے، یہ جینئیس بھی جانتے ہیں کہ، یہ بھی اتنا بے سمت نہ چلیں کہ لوٹ کے گھر جانا ہے! ذرا پپلیوں کو دیکھیں ویلے کی ونڈ پر "شاکر" بیٹھے ہیں، گویا سندھ تو کنفرم ہے، اور اچھے وقت کے منتظر ہیں وہ۔ رہبر تو پھر وہی ہے جو بند گلی سے راستہ نکال لے۔ عوامی نباض بن کر بھی دیکھ لیجئے، اسٹیبلشمنٹ ایک رومانس اور جمہوریت ایک حسن کا درجہ رکھتے ہیں ہنوز ! بات جہاں تلک بھی جائے یا نشتریت کی چبھن کچھ بھی سہی ، اس سنگھم سے استفادہ وقت کی آواز ہے ابھی۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار تجزیہ کار سلامت رہیں، بے شک دانش سے استفادہ کرلیجئے۔ آخر، ہوا ہمیشہ یہی ہے کہ:
ح±سن نے اپنی جفاو¿ں پہ بہائے آنسو
عشق کو اپنی وفاو¿ں پہ بھی رونا آیا
٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن