مکرمی!ملکی حالات اور سیاسی منظر نامے ایسی تصویر کشی کر رہے ہیں کہ گویا کوئی انقلاب دستک دے رہا ہو،کارکردگی، تبدیلی، احتساب او راصلاحات جیسے الفاظ حلقہ سیاست کی زینت اور ذرائع ابلاغ کی مرغوب غذا بن چکے ہیں۔ جوں جوں انتخابی موسم قریب آتا جا رہا ہے اس انقلابی حدت میں شدت آتی جا رہی ہے اور عوام بھی حسب ضرورت اپنے اپنے پیشواﺅں کے پیچھے بڑے خشوع و خضوع کیساتھ اس حدت کا ایندھن بنتے جا رہے ہیں اور اسی میں خوش ہیں،یہ سمجھا جاتا ہے کہ زندگی گزارنے کےلئے ہوا،پانی،خوراک کیساتھ ساتھ سیکھنے کی بھی مسلسل ضرورت درپیش ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں سیاست وہ واحد شعبہ ہے جہاں کسی کو کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں نیچے سے لیکر اوپر تک کسی بھی نشست پر بنا کچھ سیکھے براجمان ہو کر با اختیار ہوا جا سکتا ہے،ملک میں سیاست کی پریکٹس کرنے والے لا تعداد رہنماﺅں ،کارکنان نے سیاسیات کو بطور مضمون پڑھا ہوگا ،ان گنت رہنما کارکنان طویل عرصہ سے اپنی سیاسی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں مگر پھر بھی عملی سیاست کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے ،جب تک سیاست کو عملی طور پر رائج نہیں کیا جائے گا ،اس میں بہتری آنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ (قاسم علی قاسم،چوک بڑا کنواں ،دولتالہ گوجرخان )