مکرمی! گزارش ہے کہ دیہات کی بڑھتی ہوئی آبادی اور بدلتے ہوئے لائف سٹائل کے مطابق کسی حکومت نے کوئی پلاننگ نہیں کی پہلے لوگ رفع حاجت کے لئے کھیتوں میں جایا کرتے تھے۔ اب اکثریت نے گھروں میں لیٹرینیں بنا لی ہیں مگر ڈسپوزل کا کوئی نظام موجود نہیں۔ لہٰذالوگوں نے گھروں کے سامنے اور سڑکوں کے درمیان غرقنیاں بنا کر لیٹرینوں کا پانی سیدھا زیر زمین پانی میں ملانا شروع کیا ہوا ہے اور یہی پانی قریب ہی لگے پمپوں سے نکال کر پیا اور دیگر ضروریات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اپنی ہی گندگی پانی میں خود لا کر پیتے ہیں اس سے زیادہ انسانیت کی توہین اور کیا ہوگی ایسے پانی کا پینا نا جائز ہے نہ اس سے دھوئے گئے پکڑے اور بدن پاک ہوتا اور وضو اور نماز جائز ہے۔ حکومت کی طرف سے فلٹریشن پلانٹس پر اربوں روپے خرچ کرنے کی بجائے دیہات کو سیوریج مہیا کیا جائے تاکہ زیر زمین پانی جو کہ کسی بھی منرل واٹر سے بہتر ہے مزید آلودگی سے بچ جائے یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ پانی کو پہلے خود گندا کیا جائے اور پھر اسے فلٹر کرکے پیا جائے اگر یہ خرابی بڑھتی ہی گئی تو پاکستان کو صاف پانی بھی باہر سے منگوانا پڑے گا۔ڈاکٹر محمد ابراہیم ماموں کانجن تاندلیانوالہ فون نمبر041-341912: