ان دنوں راقم بطور ممبر فلم سینسر اپیلٹ بورڈ میں وزارت امور خارجہ کی نمائندگی کر رہا تھا ۔ اکیسویں صدی شروع ہو چکی تھی اور افغانستان کے فلم ڈیپارٹمنٹ کے حبیب اللہ سے میری ملاقات فلم سینسر اپیلٹ بورڈ کے دفتر میں ہی ہوئی تھی۔ موصوف نے بتایا تھا کہ ملک بھر میں بننے والی ہر فلم کی ایک کاپی ان کے دفتر میں محفوظ ہوتی تھی۔ طالبان کے عہد میں جب فلم کو غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا تو فلموں کی تلاش میں ان کے دفتر پر بہت چھاپے پڑے۔ مگر انہوں نے تمام فلمیں فالس سیلنگ اور دیگر خفیہ جگہوں پر محفوظ کردیں اور یوں وہ اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے ملک کا تمدنی ورثہ بچانے میں کامیاب رہے۔ اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنی جانوں کو داﺅ پر لگا کر کیا تھا جو بے شک کوئی مہنگا سودا نہیںتھا۔