نامور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ کرہ ارض ایک صدی بعد انسانی زندگی کیلئے ناموزوں ہو جائیگااور تب ہمیں اپنی بقاءکیلئے کسی اور سیارے پر ہجرت کرکے جانا ہوگا۔لیکن ہماری میونسپل کارپوریشن گوجرانوالہ اس بڑے سائنسدان کے اندازوں سے ایک سو سال پہلے ہی ایسی صورتحال پیدا کر چکی ہے ۔’ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے ‘۔ شہر گوجرانوالہ میں ہر اطراف کوڑے کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر پڑے ہیں۔ گندگی میں پلنے والے کیڑوں کی طرح یہاں کے شہری ان ڈھیروں میں زندگی کرنے کا چلن سیکھ لیں تو اور بات ہے ورنہ اس شہر سے ہجرت لازم ہو چکی ہے ۔ یہ شہر انسانی زندگی کیلئے ناموزوں ہو چکا۔ ایک مرتبہ ایک شاعر نے جھجھلا کر کہا تھا۔
اذاں پہ قید نہیں ، بندش نماز نہیں
ہمارے پاس تو ہجرت کا بھی جواز نہیں
وہ بھلا مانس سمجھتا ہو گا کہ شاید کسی جگہ سے ہجرت کی صرف دو وجوہ ہیں۔اس کے وہم و گماں میں بھی یہ نہیں ہوگا کہ کسی بستی میں کوڑے کرکٹ کے بےشمار ڈھیر بھی ہجرت کا جواز بن سکتے ہیں۔ صدر ایوب کے دور میں قوم خبط عظمت میں مبتلا کی گئی ۔قوم کو صدر ایوب کے ایشیائی ڈیگال ہونے کی اطلاع پہنچائی گئی ۔ اسی زمانہ میں پاکستان کی ایک شوگر مل اور ایک ڈیم کے بارے کچھ ایسا ہی سننے میں آتا رہتا تھا۔ ایشیاءکی سب سے بڑی شوگر مل اور ایشیاءکا سب سے بڑا مٹی کا ڈیم ۔ اسی زمانہ میں ایک ترنگ میں آکر یار لوگ اپنے شہر گوجرانوالہ کو بھی ایشیاءکا سب سے گندا شہر قرا ردیتے تھے ۔ ان دنوں لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ دنیا کا کوئی شہر اتنا گندا بھی ہو سکتا ہے جتنا ہمارا شہر آج ہے ۔ گندگی کے ڈھیر سڑکوں پر ٹریفک میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ میری بستی پیپلز کالونی میں مسجد الفتح مرکزی جامع مسجد ہے ۔ مسجد کے سامنے کالونی کا پارک ہے ۔ مسجد کے ایک جانب مارکیٹ ہے اور دوسری جانب ڈبلیو بلاک ۔ یہ رہائشی بلاک ہے ۔ آپ ڈبلیو بلاک سے سیدھے مسجد میں نہیں آسکتے، نہ ہی پیدل اور نہ ہی کسی سواری پر ۔ آپ کو پارک کے گرد چکر کاٹ کر آنا پڑے گا۔سیدھا راستہ گندگی کے پہاڑ نما ڈھیر نے بند کر رکھا ہے ۔ شہر میں بہت سی سڑکوں پر یہی منظر نامہ ہے۔ لطیفہ کے طور پر میرے شہر میں یہ بات اکثر دہرائی جاتی ہے ۔ گوجرانوالہ میں ڈینگی مچھر پیدا نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ ڈینگی مچھروں کا وجود صرف شفاف پانی میں ممکن ہے ۔2013کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ ن نے اس شہر سے کلین سویپ کیا۔ پنجاب بھر میں بھی انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ۔ پھر صوبہ پنجاب اور وفاق دونوں جگہوں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہو گئی ۔ پھر میاں فیملی نے من مانیاں شروع کر دیں۔ اپنے دوست احباب اور وفاداروں کو نوازنے کیلئے نت نئے طریقے ڈھونڈے گئے ۔صوبہ پنجاب میں پبلک سیکٹر میں تشکیل کی گئی ۔ 56کمپنیاں اسی سلسلے کی کڑی تھیں۔ پچھلے ہفتے لاہور ہائیکورٹ میں انہی کمپنیوں کی تشکیل کے خلاف ایک درخواست زیر سماعت تھی ۔ درخواست گذار کو پبلک سیکٹر میں قائم کی گئی ان کمپنیوں کی تشکیل اور اراکین اسمبلی کو ان کی سربراہی سونپنے پراعتراض تھا۔عدالت نے حکومت پنجاب کی جانب سے جواب داخل کرنے کیلئے مزید وقت طلب کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فنڈز کی ترسیل کے متعلقہ تفصیلات طلب کر لیں۔ گوجرانوالہ شہر پر گندگی کا یہ سارا عذاب انہی کمپنیوں میں سے ایک‘ گوجرانوالہ سالڈ ویسٹ کمپنی کے باعث نازل ہوا ہے ۔ اس کمپنی کے جوپہلے ایم ڈی لگائے گئے وہ اس سیٹ کیلئے مطلوبہ تعلیمی اہلیت بھی نہیں رکھتے تھے ۔ اس سیٹ کیلئے کوئی انوائرمنٹل سائنس یا منیجمنٹ سائنس میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر چاہئے تھا۔اور وہ محض ایم بی بی ایس ڈاکٹرتھے ۔ بس آنکھیں بند کر کے تقرری کر دی گئی۔ابتداءمیں تنخواہ 3,27,000/-روپے مقرر کی گئی ۔ بیشمار دیگر مراعات اس ماہوار تنخواہ کے علاوہ تھیں ۔ موصوف نے جلد ہی اپنی تنخواہ بڑھواکر 8,53,000/- روپے ماہوار کر لی ۔ کمپنی کے پاس تین ارب اڑتالیس کروڑ کے فنڈز تھے ۔ ان سے کمپنی کیلئے ایک مرلہ زمین بھی نہیں خریدی گئی ۔ ایک عدد ٹریکٹر ٹرالی بھی خریدنے کی توفیق نہ ہوئی ۔ ایم ڈی نے اپنے لئے اور اپنے افسروں کیلئے گاڑیوں کا ایک بیڑہ ضرور حاصل کرلیا۔ کمپنی میں پہلے سے موجود ٹریکٹر ٹرالی کا سالانہ مرمت کا بل ان کی اصل قیمت سے بھی بڑھ جاتا تھا۔ اس سالڈ ویسٹ کمپنی کے چیئرمین ایک مقامی ایم پی اے تھے۔ یہ نیک شہرت رکھنے والے ایک کامیاب صنعتکار ہیں۔ بیشک ان پر کرپشن کو کوئی الزام نہیں۔ لیکن اس سے زیادہ کرپشن اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ سب گھپلے ان کی نا اہلی اور عدم توجہ کے باعث ہوتے رہے ۔ ورنہ کوئی ادارہ ہو یا ملک ، اوپر بیٹھا سربراہ اگر درد دل رکھتا ہو ، تدبیروتعمیر میں مخلص اور خوش نیت ہو، جوش کردار کا حامل ہوتو کوئی وجہ نہیں کہ اچھے نتائج برآمد نہ ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں عوامی عہدے صرف ”شو شا“کیلئے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ مطلق انصاف نہیں کیا جاتا۔ آج سیاسی جماعتوں میں کوئی بھی محض ڈیسک ورکر بننے کو تیار نہیں۔ کالم کے آخر میں عرض ہے کہ اس ماہ رمضان میں تمام زکوٰة ، خیرات اور صدقات میئر شیخ ثروت اکرام کو دے دیئے جائیں تاکہ شہر کی صفائی ہو سکے ۔ دوسری عرض یہ ہے کہ کوئی تنظیم شہر کے مرکزی مقام پر ایک بڑے سائن بورڈ پر گوجرانوالہ سالڈ ویسٹ کمپنی کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری ممبران کے نام لکھ دے ۔ تاکہ شہری اپنے ”مہربانوں“ سے آگاہ رہیں۔