ملک میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات کی گہما گہمی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ملک کی بڑی سےاسی پارٹیوں میں ایک دوسرے کے خلاف ©"زبانی جنگ" جاری ہے۔ان تما م پارٹیوںکا ہدف مشترک ہے۔اوروہ اسمبیلوں میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیںنہ کہ عوام کی خدمت۔وہ کوئی بھی حربہ استعما ل کر کے اگلے پانچ سالوں کیلئے عوام کے پیسے کو اپنی دسترس میں لانا چاہتے ہیں۔اور اس سلسلے میں جائز ناجائز میںقطعی کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔
مختلف پارٹیوں کے سربراہ جلسوں کے زریعے لوگوں کو اپنے مد مقابل کے خلاف اکسانے میں پوری شد و مد سے مصروف ہیں۔جلسوں میں قطع نظر اس کے کہ کتنے افراد شرکت کرتے ہیں ۔مفت کھانے اور زرئع آمدورفت کی سہولیات کے باوجود صرف تقریبا ایک تہائی افراد اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔سیاسی راہنماﺅں نے اپنا سب کچھ داﺅپر لگایا ہوا ہے کیونکہ حکومت آنے کے بعد اربوں روپے اُن کے ہا تھ میں آ جائیں گے۔جو کہ وہ اپنی مرضی سے مختلف منصوبوں پر خرچ کریں گے۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو اُن کی فلاح اور بہبود میں کوئی بھی سیاسی پارٹی دلچسپی نہیں لیتی۔وہ وقت قصہ پارنیاںہے جب سیاسی لیڈرز انتخابات نظریاتی بنیادوں پر لڑتے تھے۔اب یہ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور تحقیر پر مشتمل ہے۔جس کیلئے تمام ذرائع ابلاغ مثلا اخبار ،ٹی وی ،انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ نیز تقاریر کے دوران دوسری پارٹیوں کے سربراہان کی کردار کشی کھل کر کی جاتی ہے۔ ایسا کرتے وقت اس بات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ ہمارے رہنما کس قدر قابلیت کے حامل ہیں۔ووٹر امیدوار کی قابلیت کی بجائے ذات برادری قبیلے، دیرینہ تعلقات وغیرہ کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں ۔ہمارے عوام کے متوسط طبقے کی بڑی تعداد کو اس چیز کا احساس ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات مثلا علاج معالجے ،تعلیم ،توانائی اور پانی کیلئے حکو مت پر انحصار نہیں کر سکتے کیونکہ اس نے یہ کام نجی سیکٹر کے حوالے کر دیئے ہیں۔ غریب شخص کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے بچوں کواپنی تعلیم اور علاج معالجے کے لئے گورنمنٹ کے تحت چلائے جانے والے سکولوں اور شفا خا نوں میں بھیجیں جن میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان وجوہات کے پیش نظر ہر پانچ سال بعد انتخابات کا ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت ہے۔
ہمارے لیڈرز کا حکومت میںآنے کا اصل مقصد ملکی وسائل پر دسترس حاصل کر کے اُسے اپنی مرضی سے استعمال میں لانا ہے۔ اس ضمن میں مسعود قزلباش صاحب اپنی کتاب PAK UNDER SIEGE میں لکھتے ہیں ۔کہ ہمارے ملک میں سیاست کا اصل مقصد روپے پیسے کا لالچ ہے مصنف کہتا ہے ہمارے قائد کا اس پاکستان کو تشکیل دینے کا اصل مقصد اسے ایک ترقی یافتہ اور لوگوں کی فلاح اور بہبود کا ملک بنانا تھا۔ جناب قائد اور لیاقت علی خان کے بعد خود غرض اور نا اہل افراد نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھال لی جس سے ملک دولخت ہو گیا اور غربت اور افلاس نے ہمیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔ مصنف کہتا ہے کہ جناب بھٹو اور جنرل ضیاءالحق نے سوشلزم اور اسلام کا نظام مسلط کرنے کی کوشش کی لیکن اُن کے بعد بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے حکومت میں آنے کے بعد اُن کا اصل مقصد مال اور دولت کا حصول بن گیا۔مثال کے طور پر آصف علی ذرداری کا فرانس میں "سرے محل" جس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔کو دیکھ کر اس ملک کے صدر کے منہ میں بھی پانی آتا ہے۔
اب ہمارے ایک اور لیڈر عمران خان ایک" نیا پاکستان" بنانے کا نعرہ لگا رہے ہیں۔لیکن نیا پاکستان تو اس وقت ہمارے سامنے ہے جہاں پر لاتعداد شاپنگ سنٹر،میٹرو اور جنگلہ بس،انڈرپاس BMW اور دیگر مہنگی غیر ملکی ساخت کی گاڑیاں لاکھوں موٹر سائیکلیں موجود ہیں۔ اُن کیلئے یہ بہتر ہو گا کی ملک کو اپنی پارٹی کی مناسبت سے ےعنی " تحریک انصاف "کے سانچے میں ڈھالنے کا منصوبہ بنائیں کیونکہ نیا پاکستان تو پہلے ہی موجود ہے۔یہ جناب عمران خان کی خام خیالی ہے کہ وہ اُن ہی پرانی چیزوں کی مدد سے نیا پاکستان بنا سکتے ہیں مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں تمام امیدوں کو خیر باد کہہ کر اس حقیقت پر سمجھوتہ کر لیا جائے کہ 2018میں ہونے والے انتخابات ملک میں قطعی کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائیںگے سوائے اس کے کہ ہم اپنا مستقبل قسمت کے داﺅ پر لگا رہے ہیں۔
عام انتخابات اور ہمارا مستقبل قسمت کے در پر
May 21, 2018