رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ”منافع خور“ عوام کو دونوں ہاتھوں سے” لوٹنا“ شروع ہو جاتے ہیں ۔جبکہ حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہتی ہے ۔ماہ مبارک میں اللہ کے مومن بندے خدائے رحیم کی رحمتوںکے طلب گار اور اپنی عبادات میں مصروف ہوتے ہیںتو دوسری طرف ”ذاتی لالچ“ میں مگن خوف خدا سے”عاری بیوپاری “اور دکاندار اوروں کے لیے زحمت اور اذیت اور اپنے لیے ”نفرتیں “سمیٹنے میں لگے ہوتے ہیں ۔ ناجائز منافع خور رمضان المبارک میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں” خود ساختہ “اضافہ کرکے عام لوگوں کے لیے ”معاشی تکلیف “کا باعث بنتے ہیں۔ حکومتی گرفت نہ ہونے کے باعث منافع خور ، ذخیرہ اندوز صارفین کو مہنگی اشیا فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کئی دن پہلے شروع کر دیتے ہیں جبکہ حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ۔ اگر صوبائی حکومت کی بات کریں تو اس بار رمضان پیکیج پنجاب کے11کروڑ عوام کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔حکومت” لالی پاپ“ دے کر عوام کو بہلاناچاہتی ہے۔ بھلاصوبے کے11کروڑ عوام کے لیے قائم300سستے بازارکیسے کافی ہو سکتے ہیں ۔
اس سے قبل بھی وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے صوبے کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔شہر لاہور جہاں پہ حکومت کی رٹ باقی صوبے کی نسبت قدرے بہتر ہے وہاں پہ بھی سستے بازاروں میں مہنگائی کا ”راج“ ہے ۔رمضان پیکیج سبسڈی والی اشیا یوٹیلٹی اسٹور کے ذریعے فروخت کرنے کے فیصلے سے پورے ملک کے صارفین استفادہ حاصل نہیں کرسکیں گے،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پہ سامان بھی ”نایاب “ہے ۔ کئی سال سے یو ٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین سبسڈی والی اشیا صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے” مافیا“ کے ساتھ ساز باز کرکے کروڑوں روپے کمالیتے ہیں۔اس وقت ملک کی آبادی 21کروڑ ہے جبکہ یو ٹیلٹی اسٹورزکی کل تعداد 5491ہے۔آپ خود اندازہ لگا لیں کہ عوام کو ریلیف کیا ملے گا ۔ حکومت پنجاب ہرمضان المبارک کے دوران عوام کو ریلیف دینے کے لئے رمضان پیکج کی منظوری دیتی ہے۔ سبسڈی دینے کابنیادی مقصد غریبوں کا روٹی پر خرچہ کم اور مقدس مہینے میں تمام اشیاءان کی پہنچ میں رکھنا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے غریب اس ریلیف سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ امرا وہ اشیاءبھی لیکر” ہڑپ“ کر جاتے ہیں ۔
اگر رمضان المبارک میں سستے بازار نہ ہوں تو غریبوں کا کوئی پرسان حال نہ ہو ۔اس وقت غریبوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لیے دو وقت پیٹ بھرنا دشوار ہوچکا ہے۔رمضان المبارک میں علماءکا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کوقرآن واحادیث کی روشنی میں بتائیں کہ جائز منافع کیا ناجائز منافع کیا ہے۔کسی مال پر کتنا منافع لینا چاہیئے۔ رمضان المبارک میں اکثر اوقات ذخیرہ اندوزی کرکے سامان کو مہنگا کیا جاتا ہے سارا سال کھجوروں کو جمع کیا جاتا ہے اور پھر رمضان المبارک میں انھیں دگنی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے بیسن میں آٹا ملایا جاتا ہے اور اس ماہ مقدس میں بھی مرچوں،پتی اور ہلدی میں آدھے سے زیادہ ملاوٹ کی جاتی ہے ان دنوں چونکہ لوگ خیرات بھی کرتے ہیں لہٰذا کھانے پینے کی اشیاءاور فروٹ زیادہ استعمال ہوتا ہے اسی زیادہ کھپت کے پیش نظر اس کی قیمتیں بڑھا کر ناجائز منافع خوری کی جاتی ہے۔ہر پارٹی اقتدار میں آنے سے قبل بڑے سہانے نعرے لگاتی ہے ۔عوام کو بڑے بڑے خواب دکھائے جاتے ہیں لیکن حصول اقتدار کے بعد وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں ابھی الیکشن آنے والے ہیں ہر امیدوار بڑے بڑے دعوے کرے گا لیکن جیسے ہی وہ کامیاب ہو گا تو سب کچھ بھول جائے گا۔
”طویل لوڈشیڈنگ“
رمضان المبارک اوپرسے شدید گرمی جبکہ ساتھ ہی طویل لوڈشیڈنگ آخر عوام کیا کریں۔موجودہ حکومت نے 2013 کی انتخابی مہم میں یہ نعرہ لگایا تھا کہ تین مہینوں میں لوڈشیڈنگ پہ قابو پا لیں گے جبکہ پانچ سال گزر چکے ہیں لیکن حکومت اس جن کو قابو کرنے میں ناکام نظر آتی ہے ۔ شہروں اور دیہات میں 12 سے 14 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ جبکہ سحر و افطار پر بھی طویل لوڈشیڈنگ سے روزہ دار بے حال ہو جاتے ہیں ۔۔ سحری اور افطاری کے اوقات میں بھی بجلی لوڈشیڈنگ ہونا روز کا معمول بن گیا۔رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اپنے ساتھ بیش بہا رحمتیں اور برکیتں لے کر آتا ہے۔ تمام مسلمان اس ماہ کی فضیلتوں سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہونے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتے ہیںلیکن حکومت اپنے لیے بدعائیں سمیٹ رہی ہوتی ہے ۔
رات بھر کروٹیں بدلنے کے بعد سحری اور پھر افطاری میں لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی” زندگی اجیرن“ کر رکھی ہے۔ عام آدمی یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ حکومتی دعووں کے مطابق لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا ہدف کہاں گیا ۔ لوڈشیڈنگ کی بدترین صورت حال نے پیپلزپارٹی کے دور اقتدار کی یادیں تازہ کردیں آج عملا ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عام آدمی کا دن کا آرام اور رات کا چین ختم ہو چکا ہے اور صنعتی شعبے میں ترقی بھی” جمود“ کاشکار ہے۔
ماہ مقدس میں مسلسل گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کا حوصلہ چکنا چور کردیا۔ عام پاکستانی یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ وہ تمام دعوے کدھر گئے جو دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں کیے گئے تھے ۔حکومت اب مزید دعوے کرے گی اور عوام کو اپنے جال میں پنسانے کی کوشش کی جائے گی لیکن عوام کو اب خالی نعروں اور وعدوں کے سحر میں گرتا نہیں ہونا بلکہ اسے میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کسے عوامی مسائل کے حل کے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وہ سامنے لا کر اپنے مسائل کے حل کی امید قائم کر سکیں ۔