ویلکم رمضان! ایک دن ضرور مسلمان بنوں گا؟

برطانیہ میں ماہ صیام کاآغاز 17 مئی سے ہو چکا ہے جبکہ امریکہ اور کینیڈا میں مقیم مسلمانوں نے پہلے روزے کا آغاز 16 اور 17 مئی سے کیا۔ امریکن اور کینیڈین مسلمانوں نے 16 مئی کو روزے کا اعلان کس قمری شہادت پر کیا۔ میرے لئے حیرانگی کا سبب بنا ہے‘ تاہم پاکستان سمیت جاپان‘ آسٹریلیا‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں چاند کی پیدائش 16 مئی کو دیکھنے کے بعد ان ممالک میں پہلا روزہ 17 مئی کو تھا جو دنیا کے اسلامی ممالک کیلئے خوش آئند اور قابل تعریف اقدام ہے۔
برطانوی مسلمانوں کیلئے سب سے پُرمسرت لمحات یہ ہیںکہ رمضان المبارک کے احترام اور تقدس کو انہوں نے اس بار ضائع ہونے نہیں دیا اور یوں ایک ہی دن روزے کا فیصلہ کیاگیا ورنہ ماضی میں متعدد بار روزے کے آغاز کے عمل کو تقسیم کرنے کے متعدد واقعات بھی سامنے آچکے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دین کے معاملے میں ہم مسلمان انتہائی حساس ہیں۔ یہ حساسیت ہونا بھی چاہئے کہ احکام خداوندی پر عمل پیراہوکر نبی اکرم کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنا تو ایک باعمل اور باکردار مسلمانوں کا مقصد حیات ہے ورنہ زندگی اور مٹی کی اس مورت کی حقیقت محض ایک بلبلے سے زیادہ نہیں۔
رمضان المبارک کو انگلستان میں غیر مسلم کس طرح محسوس کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس اہم ترین مبارک ماہ کے احترام میں ان کی 30 دنوں کی عبادات اور ان کے ”روزہ“ کے حوالہ سے یہاں کے بڑے بڑے سٹورز ان کو کس طرح کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ اس پر آگے چل کر‘ پہلے اپنے ایک غیر مسلم گورے دوست کی رمضان المبارک میں دی گئی مبارکباد پر تاثرات۔
برطانوی حساس محکمے کا میرا پڑھا لکھا سول سرونٹ یہ دوست ہر رمضان المبارک کے آغاز پر مجھے ”ویلکم رمضان“ کا اس لئے بھی فون کرتا ہے کہ میں اسے دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی گزشتہ تین برس سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہوں۔ اس ضمن میں اسے اب تک متعدد انگریزی اسلامی کتب بھی فراہم کر چکا ہوں جنہیں اسلام قبول کرنے والے ان انگریز مصنفین نے تحریر کیا جو اسلام کی واحدانیت پر آج دنیا کی عظیم یونیورسٹیوں میں لیکچر دے رہے ہیں۔ ”کانونیٹ“ اور لندن کی ایک مذہبی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ”ٹیری“ نے مجھ سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ اسلام کا درس دینے والوں کی گفتار اور ان کے کردار اور افعال میں جس روز اسے توازن نظرآگیا‘ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوکر اپنی بقایا زندگی اسلام کی حقیقی تبلیغ کیلئے وقف کر دے گا۔ مگر! فرقہ واریت اس کی منزل ہرگز نہیں ہوگی۔ قرآن اور حدیث ہی ہمارے لئے مشعل راہ ہونگے۔ کہیں مولوی‘ عالم یا پیر فقیر سے کسی بھی قسم کی مذہبی معاونت ہرگز حاصل نہیں کروں گا کہ ”قرآن“ میں ہر شے کے بارے میں تمہارے رب نے سب کچھ صاف صاف بتا رکھا ہے۔ اس لئے اصل معاملہ تو ”عمل“ کا ہے جس کیلئے نفس سادہ کا خاتمہ پہلی شرط ہے۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کی جانب سے دعویٰ کرنے کے باوجود وہ ان احکامات پر عمل پیرا نہیں ہو رہے جن کا اسلام میں واضح ذکر کیا گیاہے۔ ”ٹیری “ اپنے اس اصول زندگی پر شدت سے کاربند ہے۔
میری بھرپور کوشش رہتی ہے کہ جب بھی فرصت کے چند لمحات میسر آئیں ٹیری سے ”مذہب اور دین“ کے بنیادی فرق پر ضرور اظہارخیال کروں۔ New Testament پر چونکہ اسے دسترس حاصل ہے اس لئے Old Testament کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے وہ تاہنوز محروم چلا آرہا ہے۔ مجھ سے بالعموم وہ یہ پوچھتا ہے کہ ایک چاند کی ایک ہی پیدائش کی اطلاع کے باوجود مسلمان برطانیہ میں ایک ہی دن عیدالفطر کا اسلامی تہوار آخر کیوں نہیں مناتے۔ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے وہ بچے جنہیں والدین باقاعدگی سے مساجد لے جاتے ہیں‘ عہد شباب میں داخل ہوتے ہی اس شراب کو جسے قرآن میں ”ام الخبائث“ کہا گیا‘ اپنی زندگی کا جزو کیوں بنا لیتے ہیں؟ گرجاگھروں اور دیگر کلیسائی میٹنگز کے مقابلے میں مسجدوںکے اندر مسلمانوں کے مابین ناخوشگوار واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہے؟ مسلمانیت کے لبادہ میں منافقت کا کردار ادا کرنے والے ایسے عناصر کا مسلم کمیونٹی کیوں محاسبہ نہیں کرتی؟
”ٹیری“ کے بیشتر سوالوں کا تعلق چونکہ ایک باعمل مسلمان‘ کردار‘ افعال اور تربیت سے ہوتا ہے‘ اس لئے اسے جواب دینے کیلئے جدید تہذیب معاشرتی پہلو اور مذہب کی غلط تشریح پر بات کرنا ضروری تصور کرتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ اس سے کی گئی گفتگو کے دوران کوئی ایسا تصوراتی‘ ناپختہ اور فرقہ سے منسلک جملہ ادا نہ کروں جس سے اس کی متوقع اسلامی سوچ کسی مقام پر متاثر ہو اس لئے جواب میرا یہی ہوتا ہے کہ انسان گو عظیم ہے مگر بعض حالتوں میں انتہائی کمزور اور لاچار واقع ہوا ہے۔ خوداحتسابی سے گھبراتاہے جبکہ ”خودنمائی“ کو حاصل زندگی بنانے کی دوڑ میں پیش پیش ہے۔ برطانیہ کا آزاد اور کھلا ڈھلا معاشرہ کسی مذہب پر قدغن نہیں لگاتا کہ مذہبی آزادی کو یہاں محض فیشن بنا دیا گیا ہے جبکہ اسلام کا فلسفہ¿ حیات قطعی مختلف ہے۔ نئی مسلمان نسل کی معاشرتی اور مذہبی تربیت ایک ایسا مشکل ترین فعل ہے جس کیلئے والدین سمیت مسلم کمیونٹی کے ہر باعمل شخص کو اپنا دینی فریضہ ادا کرنا ہے۔ مسلمان بچوں کا شراب کی طرف مائل ہونا‘ تعلیمی ماحول‘ ناقص گھریلو تربیت اور سوسائٹی کی آزاد سوچ کا وہ بنیادی پہلو ہے جس سے یہاں معاشرتی برائیوں کو کو تقویت ملی ہے جس پر کام جاری ہے‘ تاہم چاند دیکھ کر بھی ایک دن عید نہ منانا محض دھڑے بندیوں کا شاخسانہ ہے مسلمان فرقوں میں منقسم ہیں مگر اس تقسیم کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ مسلمان چاند کے مسئلہ کو سلجھانے کے حق میں نہیں۔ گرینچ مین ٹائم سے اسلامی کلینڈر تک کی تمام جدید سہولتیں حاصل کی جا چکی ہیں اس لئے اب بہت جلد یہ مسئلہ حل ہونے جا رہا ہے۔ اس ضمن میں مسلم کمیونٹی کی بڑی تعداد اور سکولوں‘ کالجوں‘ میں زیرتعلیم بچوں کو بھی عید کی چھٹی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ”ٹیری“ کا ذہن اسلام مں داخل ہونے پرکب مائل ہوگا‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے‘ تاہم اسلام کے بارے میں اس کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگانا کہ وہ ایک باعمل مسلمان بننے کا حتمی ارادہ کر چکا ہے‘ دشوارنہیں۔
اب یہ سوال کہ ماہ صیام کی آمد پر مسلمانوں کے بارے میںغیر مسلم برطانوی کیا سوچتے ہیں؟ یہ مناظر دیکھتے ہوئے اکثر و بیشتر اپنے آپ پر ندامت ہونے لگتی ہے کہ وہ گورے جنہیں ہم ”کافر“ قرار دینے میں ذرہ بھر تامل نہیں کرتے، مسلمانوں کے اس متبرک ماہ کی اہمیت کے پیش نظر اپنے سپر سٹورز میں ایک ماہ قبل ہی اشیاءخوردنی پر خصوصی رعایت کا اعلان کر دیتے ہیںاور ایک ہم ہیں کہ پاکستان میں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی قیمتوں میںاضافہ کا بگل بجا دیا جاتاہے۔کتنا فرق ہے دو معاشروں میں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...