عدل کی جلدفراہمی کےلئے باراوربنچ کو متحرک ہونےکی ضرورت

احمد کمال نظامی

زوال اور عروج کی کہانی بھی بڑی دلچسپ اور غوروفکر کرنے والوں کے لئے ایک ایسا سمندر ہے کہ ہر غوطہ میں ان کے ہاتھ موتی آتے ہیں۔ کہنے کو ہم اس وقت ماضی کے مقابلے میں ترقی کی منازل کو چھوتے ہوئے خود کو اوج ثریا پر پاتے ہیں،مگر معاف کیجئے یہ ہماری خوش فہمی ہے۔ ترقی یافتہ عہد میں داخل ہونے کے باوجود اگر حقیقت کی نگاہ سے اپنا اور اپنے عہد کا جائزہ لیں تو ہم زوال کی گہری کھائیوں میں گرے ہوئے ہیں، اس قدر مسائل کے گرداب میں پھنس چکے ہیں کہ رہائی اور نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ کہنے کی اجازت بھی دیجئے کہ ماضی، جس کو ہم ناخواندگی کے عہد سے یاد کرتے ہیں،وہ عہد ناخواندگی ہر میدان میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر تھا۔ اخلاق و تہذیب کی اعلیٰ سے اعلیٰ روایات ہمیں ماضی کے اوراق پر چمکنے اور روشن ستاروں کی طرح نظر آتی ہیں۔ غرض کہ تہذیب و ثقافت کے میدان میں ہم ایک سے ایک خوبصورت اور روشن میناروں کے معمار دکھائی دیتے ہیں۔ آج ہم عدل کے حوالہ سے بات کریں گے کیونکہ عدل ہی اقوام کی پہچان ہوتی ہے اور عدل تاریخ کو جنم بھی دیتے ہیں اور تاریخ بناتے بھی ہیں۔ عدالت عالیہ لاہور کے معززچیف جسٹس نے اپنے دورہ سمندری اور تاندلیانوالہ ضلع فیصل آباد میں بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مظلوم کو انصاف کی جلد فراہمی انصاف کی طلب کی پیاس بجھانے کے مترادف ہے۔ اس سلسلہ میں عدالتی عمل بار اور بنچ کے مابین مربوط حکمت عملی کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں وکلاءاور ججز اپنے اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں متحرک کردار ادا کریں تاکہ مقدمات کی سماعت میں تاخیر نہ ہو۔ وکلاءاور ججز ایک جسم کی مانند معاشرے میں انصاف کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔معززجسٹس یاور علی نے کہا کہ تمام ماتحت عدلیہ اور بار کو یکساں سہولیات فراہم کرنے کا ایک جامع اور قابل عمل منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ چاروں صوبوں کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی قابل احترام کرسی پر جو شخصیات رونق افروز ہوئیں بلاامتیاز ہر ایک نے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ انہی الفاظ کو اپنا ایجنڈا اور نصب العین قرار دیا۔عدلیہ ایک قابل احترام ادارہ کا درجہ رکھتا ہے۔اسلام کی تاریخ میں تو عدلیہ کے احترام کے باب کے باب روشن میناروں کی طرح درخشندہ ہیں اور وقت کے حاکم بھی عدلیہ کے سامنے سرخم تسلیم نظر آتے ہیں۔ اپنی بات کو آگے بڑھانے سے قبل ایک بات کہنی، عوام کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ جس معاشرہ میں احترام عدلیہ عنقا ہو جائے وہ اس معاشرہ کے زوال کی علامت ہوتا ہے اور اس معاشرہ کو تباہی سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ عدلیہ کا احترام انتہائی ضروری ہے اور جو احترام نہیں کرتے وہ اپنے ہاتھوںانصاف کے ایوانوں کو مسمار کر کے ایک مادر پدر آزاد معاشرہ کی تشکیل میں وہ کردار ادا کرتے ہیں جو انسانیت کی فلاح اور بقا کی بجائے فنا کی طرف جاتا ہے، رہبری کے پردے میں راہزنی ہوتی ہے۔دنیا بھر کی تاریخ اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ جن ممالک میں لوگوں کو انصاف مہیا ہوتا ہے انہوں نے دشمن پر بھی فتح پائی ہے۔ اگر ہم اسلام کی تاریخ اور اسلاام کے پھیلا¶ پر ایک نظر ڈالیں کہ مختصر وقت میں اسلام کا پرچم پوری دنیا پر لہراتا ہوا اس لئے دکھائی دیا کہ اسلام نے انصاف کے پرچم کو اس قدر سربلند کیا کہ باقی تمام پرچم خودبخود سرنگوں ہو گئے۔اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا بلکہ اسلام نے انصاف کا جو پیمانہ بنایا اس پر عمل کر کے بھی دکھایا،آقا اور غلام کی تمیز ختم کر دی۔ حضور سرور کائنات کی ایک حدیث کامفہوم ہے کہ” اگر فاطمہؓ بھی چوری کرے تو ہاتھ قلم کرنے کا حکم صادر کروں گا“۔ یہ حدیث مبارکہ انصاف کا دیباچہ قرار پائی۔مغرب والوں نے میزان کے ساتھ آنکھوں پر پٹی کو اپنا ماٹو قرار دیا وہ اسی حدیث مبارکہ کی تفسیر ہے۔ انصاف کے یہ معانی ہرگز نہیں ہےں کہ ایک نسل انصاف کی طلبگار ہوتی ہے اور اس شخص کی تیسری نسل عدالتوں میں ذلیل و خوار ہوتی نظر آتی ہے یعنی دادا کیس کرتا ہے اور پوتا تاریخیں بھگتتا نظر آتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے کئی اعدادوشمار نہیں ہیں جن سے معلوم ہو سکے کہ کتنے فوجداری اور دیوانی کیس عدالت میں زیرسماعت ہیں، ہم ماہر قانون نہیں ہیں اتنا ضرور جانتے ہیں کہ کیس، کیس ہی ہوتا ہے چاہے وہ فوجداری ہو یا دیوانی، یہ تمیز مغرب والوں نے تاخیری حربہ استعمال کرنے کے لئے ایجاد کی۔اسلامی قانون کے مطابق ہر مقدمہ فوجداری بھی ہوتا ہے اور دیوانی بھی اور اس میں تاخیر انصاف کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے والی بات ہے۔ لہٰذا انصاف کے جلد حصول کو معیار قرار دیتے ہوئے حکومت کی بجائے یہ کام عدلیہ کا ہے کہ چیف جسٹس کی نشست پر جو بھی معززقاضی بیٹھے وہ اپنی ماتحت عدلیہ کے لئے قانون بنائے کہ ایک مقدمہ چاہے اس کی نوعیت کوئی بھی ہو چھ ماہ کے اندر فیصلہ ہونا چاہیے۔ صوبہ خیبر پی کے میں اب قانون بنا ہے جس کے تحت دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے ہونے کی مدت مقرر کی گئی ہے اس پر کہاں تک عمل ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ یہ فیصلہ محض نعرہ تو نہیں کیونکہ ہماری دیرینہ روایت ہے کہ ہم سیاست کے نام پر عوام کو نعروں پر رقص کرانے کے بڑے ماہر ہیں اور نعروں پر رقص کی بدولت ہی ہم زوال کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بار اور بنچ کا رشتہ بڑا گہرا ہے لیکن ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مقدمات میں تاخیر در تاخیر کی ذمہ داری بار پر عائد ہوتی ہے یا بنچ پر؟۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انصاف کی راہ میں تاخیر کی ذمہ داری بار کے بعض ارکان پر عائد ہوتی ہے جن کی شہرت ہی مقدمہ کو طول سے طول دینے کی ہوتی ہے۔ اس حقیت پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کہ جنرل پرویزمشرف کے عہد حکومت میں عدلیہ کی بحالی کی جو تحریک چلی اس کے بعد بعض وکلاءنے ایسے کردار کا مظاہرہ کیا کہ بنچ کا ادب و احترام خاک میں مل کر رہ گیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ معززچیف جسٹس عدالت عالیہ اپنی ماتحت عدالتوں کو یہ حکم صادر کریں کہ جس قدر ان کی عدالت میں جو مقدمات زیرسماعت ہیں ان کا ترجیحی بنیادوں پر فیصلہ کیا جائے اور چھ ماہ کا ٹارگٹ دیا جائے کہ پرانے مقدمات خصوصی طور پر دیوانی مقدمات کے چھ ماہ کے اندر اندر فیصلے ہونے چاہئیں اور بار بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ یقین کیجئے کہ اگر اس ضمن میں اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو ان کا یہ قدم مرض کا شافی علاج ہو گا کیونکہ مقدمات میں تاخیر در تاخیر ہی انصاف میں حائل رکاوٹوں میں مبتلا کرنے والی بات ہے اور اس کے علاج سے ہمیں امید ہے کہ ہم جس زوال کی طرف معاشرہ کو دھکیل رہے ہیں،یہ قدم اس کے آگے ”دیوار چین“ تعمیر کرنے کے مترادف ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن