جب سے عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ پاکستان کا مقدر ہوئی ہے۔ اقتصادی شعبے میں زبردست اتار چڑھائو دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ اتار ہی اتار ہے چڑھائو تو صرف ڈالر کی قیمت میں ہے۔ اسکی وجوہات دونوں فریق یعنی حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی بیان کر رہی ہیں مگر اس میں اکیلے تو بے چارے عوام ہیں۔ جو دونوں کی وجوہات کو درست بھی تسلیم کریں تو بھی ’’اتار‘‘ کا زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔ یعنی مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ دونوں فریق اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اور لوگوں کی کوئی بات کرنے پر تیار نہیں کہ وہ بے چارے ایک تو مہنگائی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دوسرا اکیلا بھی محسوس کر رہے ہیں کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کے درپے ہیں اور دونوں کا خیال یہی ہے کہ عوام جتنے تنگ ہوں گے اتنا ہی اسے فائدہ ہوگا۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ گذشتہ روز ڈالر کی مارکیٹ میں کمی کے باوجود اسکی قیمت میں دو روپے کمی سامنے آئی مگر ساتھ ہی آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی نے اس ساری صورتحال کو بدل کے رکھ دیا اور ڈالر کی قیمت میں اب تک کا زیادہ سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یوں تو یہ اڑان 150روپے تک جانے کی خبریں پہلے روز سے گردش کر رہی ہیں ،اب تو ڈالر 150سے بھی اوپر چلا گیا ہے۔مگر خیال یہی تھا کہ حکومت اس کو کنٹرول کریگی۔ مگر ایسا نہ ہوا اور اب جا کے کہیں عمران خان نے ایک کمیٹی بنائی ہے جس کے چیئرمین آئی ایم ایف کے منظورشدہ نئے وزیر خزانہ ہیں مگر خیال یہی ہے کہ یہ کمیٹی بھی ڈالر کی اڑان کو روکنے کیلئے کچھ نہیں کر پائے گی کہ پی ٹی آئی کا بیانیہ تو اس ساری صورتحال کی ذمہ دار ن لیگ کی طویل حکومت کو ٹھہرا رہا ہے اور وہ وجوہات اپنی جگہ پر اب بھی ویسی ہی ہیں کہ سرمایہ تو واپس آیا نہیں۔ زیادہ امید یہی ہے کہ یہ کمیٹی بھی اسی بیانیے کا سہارا لے گی اور اپنی رپورٹ دیکر فارغ ہو جائیگی۔باقی رہ جائے گی ڈالر کی اڑان اور عوام الناس کی قسمت کہ کب کوئی معجزہ ہو اور ڈالر کی قیمت کم ہو جس کا امکان بھی کم ہے۔ ان حالات میں ماہِ رمضان میں لوگوں کی اپنی تنظیمیں زیادہ کام کر رہی ہیں۔ اور لوگوں کی عالمی لیول پر مدد کر رہی ہیں۔ اگرچہ وہ یہ سارا کام چیریٹی کی بنیاد پر کرتی ہیں مگر لوگ اب سمجھدار ہو گئے ہیں۔ چیریٹی میں بھی اسے ہی پیسے دیتے ہیں جو آگے پیسے لگاتا نظر آتا ہے۔ ملکی نظام کی بدحالی کی وجہ یہی ہے کہ لوگ اس لیے بھی ٹیکس نہیں دیتے کہ انھیں یہ ٹیکس کہیں خرچ ہوتانظر نہیں آتا۔ایسی ہی ایک تنظیم مسلم ہینڈز ہے جس کو چلانے والے دو نواجونوں نے چند سال پہلے یہ کام شروع کیا تھا۔ میری مراد ضیاء نوراور جناب لخت حسنین سے ہے انھوں نے علامی سطح پر اس کو آگے بڑھایا اور آج دنیا کے بہت سے ممالک میں ان کا کام دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور تنظیم ’’المصطفیٰ‘‘ نام کی ہے جس کے کرتا دھرتا جناب حنیف طیب جی ہیں ان کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ اپنی مذہبی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ انکے ساتھ اس تنظیم کے صدر عبدالرزاق ساجد ہیں۔ دونوں نے مل کر اور اپنے مسلک کے دیگر لوگوں کے تعاون سے فلاحی کام شروع کر رکھا ہے۔ اس تنظیم کا دفتر بھی لندن میں ہے جبکہ مقامی طور پر گلشن اقبال کراچی میں بھی ان کا دفتر ہے۔ انکے کام کے حوالے سے تفصیلات ہمیں جناب نوازکھرل نے بہم پہنچائی تھی تو ہم نے گزشتہ سال ماہ رمضان میں ایسی کئی تنظیموں کا تعارف کرایا تھا۔ اب جناب نوازکھرل نے جو انکے میڈیا سیکرٹری بھی ہیں کے کام کے حوالے سے مزید تفصیلات دی ہیں۔یہ تنظیم یوں تو 1983ء میں قائم کی گئی مگر آج بائیس سال گزرنے کے باوجود اسکے حوصلے اور کام کی لگن پہلے دن کی طرح جوان ہے۔ ’’حی علی الفلاح‘‘ کے موٹو کے نیچے کام کرنیوالے لوگ دن میں پانچ بار ویسے ہی ’’حی علی الفلاح‘‘ کے پیغام پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں اور پھر آنکھوں کے مفت اپریشن کا معاملہ ہو، روہنگیا کے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا معاملہ ہو، ملائیشیا میں تباہ کن زلزلہ کا مرحلہ ہو یا شامی مہاجرین کی امداد کا معاملہ اس تنظیم کے کارکن ہر جگہ پیش پیش ہیں۔اسکے علاوہ اس تنظیم نے دیگر مستقل بنیادوں پر بھی کچھ پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں ان میں حفاظ کا سپانسرشپ پراجیکٹ، المصطفیٰ واٹر پراجیکٹ، غریب کنبوں میں راشن کی تقسیم کا پراجیکٹ اور ڈائیلاسسز کا پراجیکٹ اور بچوں کیلئے تالو کا اپریشن پراجیکٹ۔ ان تمام پراجیکٹس کو چلانے کیلئے ماہرین کی دستیابی قابل داد ہے۔ ایسی تمام تنظیمیں جو مذہبی بنیادوں پر اپنا کام کر رہی ہیں ایک چیز مشورے کے طور پر شیئر کرنا لازمی خیال کرتاہوں کہ وہ وسائل کی دستیابی میں بے شک اپنا مذہبی نیٹ ورک استعمال کریں مگر اپنے پراجیکٹس میں اسے کم سے کم اہمیت دیں اور پراجیکٹس سے استفادہ کرنیوالوں کیلئے مذہب یا مسلک کو بنیاد نہ بنائیں۔ اس طرح اسلام کے آفاقی پیغام کو جو فلاح کا پیغام ہے آگے لیجانے میں مدد ملے گی۔کیوں کی پوری دنیا میں انسان ہی مسائل کا شکار ہیں اور جو انکی مدد کرتا ہے وہ پوری انسانیت کیلئے کام کرتا ہے۔ اسکا کام چاہے وہ اپنی بخشش کیلئے ہو دنیا کیلئے ایک مثال ہوتا ہے۔ چنانچہ اسلام کے آفاقی پیغام میں بھی ایسا ہی ہے۔ اس طرح کا جذبہ ایک طرف تو مذہبی دہشتگردی کا تدارک کریگا دوسرا فلاح کے پیغام کی ترویج کریگا جو اسلام سمیت تمام مذاہب کی بنیاد ہے۔ اب تک ردعمل کی سیاست نے اسلام پر عالمی حوالے سے جو الزامات عائد کیے ہیں یا کیے جا رہے ہیں انکی روک تھام کیلئے بھی یہی طرزِ عمل زیادہ بہتر اور کارگر ہوگا اور جب اسلامی وسائل سے کام کرنیوالی بڑی تنظیمیں فلاح، انسانی کے پرچم کو بلند کرینگی تو اسکے عالمی سطح پر مثبت نتائج برآمد ہونگے۔
ڈالر کی اُڑان اور ’’المصفٰی‘‘
May 21, 2019