گزشتہ کئی روز سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور ہر روز پاکستانی کرنسی کی بے قدری میں اضافہ ہورہا ہے۔
آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے کئے گئے معاہدے کے بعد پاکستانی کرنسی کی قدر میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا، افواہوں اور خدشات کے پیش نظر انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں بالعموم غیر ملکی کرنسیوں اور بالخصوص ڈالر کی خریداری دیکھی جارہی ہے ، جس کی وجہ سے روپیہ شدید دباؤ کا شکار ہے اور مسلسل بے قدر ہوتا جارہا ہے۔
منگل کے روز انٹر بینک میں کاروبار کے اختتام پر ڈالر 2 روپے 27 پیسے اضافے کے بعد 151.92 روپے کا ہوگیا۔ دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر 3 روپے اضافے کے بعد 154 روپے کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جب کہ صورت حال یہ ہے کہ مارکیٹ میں کوئی بھی ڈالر بیچنے کو تیار ہی نہیں۔
صرافہ مارکیٹ میں سونا بھی مہنگا ہوگیا، آج فی تولہ سونے کی قیمت 600 روپے بڑھی جس کے بعد ایک تولہ سونا 72 ہزار 100 روپے کا ہوگیا۔
گزشتہ روز انٹربینک میں ڈالر ایک روپے 78 پیسے مزید مہنگا ہوکر 149 روپے 65 پیسے جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک روپے مہنگا ہوکر 152 روپے پہنچا تھا۔
ایکسچینج کرنسی ایسوسی ایشن کے مطابق آج کاروبار کے اختتام پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 3 روپے سے 154 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
جب کہ انٹر بینک میں ڈالرتاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور کاروباری کے اختتام پر 2 روپے 27 پیسے اضافے سے 151.92 روپے پر پہنچ گیا۔
گزشتہ چار کاروباری دنوں میں ڈالر کی قدر میں 10 روپے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کے بعد بیرونی قرضوں میں 1000 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک وجہ ذخیرہ اندوزی بھی ہے جس کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں نفع اور ذخیرہ اندوزی کے مقصد سے ڈالر کی خریداری شرعاً گناہ اور ملک سے بے وفائی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 4 روز میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 10 روپے کے لگ بھگ مہنگا ہوا ہے جس کے باعث پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کے حجم میں ایک ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔