میٹھے کاروبار کی کڑوی رپورٹ!!!!!!

ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ حکومت کوئی بھی ہوتی چینی کے کاروبار میں کوئی غیر معمولی عمل ہوتا جیسا کہ موجودہ دور میں ہوا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہونا اور چینی ایکسپورٹ کر کے پیسے کمانے کا کوئی بھی واقع ہوتا اور حکومت کوئی بھی ہوتی انہی لوگوں کے نام آنا تھے جن کے نام ان دنوں گردش میں ہیں یا زبان زد عام ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا ایک آدھ کا اضافہ ہو جاتا یا کمی ہو جاتی لیکن مجموعی طور پر یہی نام نمایاں ہوتے۔ بہرحال اس میٹھے کاروبار کی کڑوی رپورٹ منظر عام پر آنے کو ہے۔ واجد ضیاء کی موجودگی میں رپورٹ کا بے رحمانہ ہونا تو ہے ہو چکا تھا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق واجد ضیاء دو سو صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ آج حکومت کو پیش کر دیں گے۔ پھر ایک نیا میچ شروع ہو گا یہ میچ عمران خان کی سیاسی زندگی کا اہم ترین میچ ہو گا کیونکہ عوام جو توقع کرتی ہے وہ فیصلہ نہ ہوئے تو ناصرف پاکستان تحریک انصاف بلکہ عمران خان کی سیاسی ساکھ کو بے پناہ نقصان پہنچے گا۔
اہم حلقوں میں گھومنے والے باخبر دوست بتاتے ہیں کہ جن افراد کے نام گردش میں رہے ہیں واجد ضیاء کی تحقیقاتی رپورٹ میں سب سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ شوگر ملوں میں فروخت شدہ چینی کی بہت بڑی مقدار کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا یعنی چینی فروخت کی جاتی ہے لیکن اس کا کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں ہوتا۔ یقیناً اس عمل کا فائدہ مل مالکان کو ہی ہوتا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ چینی کی ایکسپورٹ کے لیے حکومت کو غلط اعدادوشمار پیش کیے گئے غلط اعدادوشمار کی بنیاد پر ایکسپورٹ کرنے سے ملک میں چینی کی قلت پیدا ہوئی اور پھر قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس عمل میں مل مالکان تو فائدے میں رہے لیکن پاکستانی عوام کو اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑا۔ بتایا جا رہا ہے کہ رپورٹ میں ٹیکس چوری کے حوالے سے لکھتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ چینی مل مالکان کے حوالے سے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کسانوں کے ساتھ ان کا سلوک اچھا نہیں ہے اور کاشتکاروں کو ان کا جائز حق نہیں دیا جاتا یہاں بھی مل مالکان فائدہ اٹھاتے ہیں۔
چینی بحران پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس بحران کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان تحریک کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا۔ جب کہ دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا میاں شہباز شریف نے بحران کو سو ارب روپے کا حکومتی ڈاکہ قرار دیا تھا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپریل میں رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ آٹا چینی بحرانوں کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں نہ لایا گیا تو ایسے بحرانوں پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ دوسری طرف وفاقی کابینہ میں شامل کئی افراد جہانگیر ترین کو بے گناہ سمجھتے ہیں۔
ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات کے بعد اب فرانزک آڈٹ رپورٹ بھی آج حکومت کو مل جائے گی اس کے بعد اصل میچ شروع ہونا ہے کیونکہ جو تین نام سب سے نمایاں ہیں وہ براہ راست حکومت کا حصہ ہیں۔ جہانگیر ترین کا شمار وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریبی سیاسی دوستوں میں ہوتا ہے اور ابتدائی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد انہوں نے وزیراعظم سے تعلقات میں تناؤ کا اعتراف کیا تھا۔ اس کے بعد یقیناً معاملات کو سلجھانے کے لیے کوششیں کی گئی ہوں گی لیکن ایک بات تو طے ہے کہ کرپشن کے معاملے پر عمران خان کو موقف بہت واضح ہے کوئی بھی شخص کرپشن کرتا ہے تو عمران خان کے راستے اس سے جدا ہو جاتے ہیں۔ یہی تحریک انصاف کے منشور اور انتخابی نعرے اور وعدے کی بنیاد بھی ہے۔ اس بنیاد کے پیش نظر اگر کوئی قریبی ساتھی بھی کہیں بدیانتی کرتا ہے کرپشن میں ملوث ہوتا ہے تو عمران خان اس شخص کو کٹہرے میں لانے کے ذمہ دار ہیں اور یہ ان کا عوام سے وعدہ ہے۔ اس وعدے کو نبھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ مشکلات میں گھری حکومت کو بنیاد پر واپسی اور پالیسی پر سخت فیصلے ہی مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔
اس سارے عمل میں کوئی قصوروار ہے یا ذمہ دار ہے، کسی کو سزا ہوتی ہے یا نہیں لیکن نظام کو بہتر بنانا سب سے اہم ہے۔ نظام میں موجود خامیوں کی وجہ سے عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ یہ کاروباری لوگ ہیں ان کے کارخانوں میں ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں ان کے کاروبار کو جاری رکھتے ہوئے نظام میں موجود خامیوں کو دور کر کے عوام کو فائدہ پہنچانے کی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ جب قانون پر عمل ہو اور فیصلے چہرے دیکھ کر نہ ہوں تو کوئی عوام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا نہ ہی ریاست کے اداروں کے ساتھ کھیل کھیلنے کی جرات کرتا ہے۔ ایسے سخت فیصلے عمران خان ہی کر سکتے ہیں ویسے بھی قوم کی نظریں ان پر ہیں کہ وہ روایتی سیاست دانوں کی طرح کام نہیں کریں گے بلکہ حقیقی معنوں میں تبدیلی لائیں گے۔
حکومت کو چاہیے کہ چینی کے لیے خام مال برآمد کرے اور باقی سارا کام ملک کرے تاکہ ہر سال کے اس کھیل سے قوم کو نجات ملے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت کو کاٹن انڈسٹری کے فروغ کے لیے ترجیحی بنیادوں ہر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کاٹن انڈسٹری کے فروغ سے بھاری سرمایہ کاری ہو سکتی ہے، روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں اور ملک میں صحت مند کاروباری سرگرمیوں کا آغاز ہو سکتا ہے۔ کسان خوشحال ہو سکتا ہے۔وزیراعظم کی معاشی ٹیم کو یقیناً اس بارے کام کرنا چاہیے۔ کاروبار کے مواقع بڑھانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے چاہییں۔ کسانوں کو مفادات کا تحفظ ترجیحی بنیادوں ہر ہونا چاہیے۔ قوم وزیراعظم عمران خان سے انقلابی فیصلوں کی توقع کر رہی ہے امید ہے کہ وہ عوامی توقعات پر پورا اتریں گے۔ فیصلے عوامی مفاد میں کیے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن