یوم القدس کی آمد آمد ہے۔ کرونا وباء نے حج معطل کرانے کا ماحول پیدا کردیا۔ ایسے میں یوم القدس کی کسے فکر ہوگی۔ امارات سے براہ راست اتحاد ائیر کی پہلی پرواز اسرائیل میں اتر چکی ہے۔ اب مظلوموں کو ستا کر اللہ کے عذاب کے منتظر ظالم، غاصب صہیونیوں کے مدمقابل ننگے پیر، خالی ہاتھ فلسطینی کسے یاد رہیں گے؟ اب تو فلسطین کی دعائیں ہمارے جمعے کے خطبوں سے بھی کم کم ہی سنائی دینے لگی ہیں۔ صہیونی ایجنڈا بھی یہی ہے کہ رفتہ رفتہ فلسطین نام کی ریاست کا نقشہ دنیا کے نقشے اور بالخصوس مسلمانوں کے ذہن سے ہی مٹا دیا جائے۔ یہی فارمولا اب موذی مقبوضہ کشمیر میں لاگو کرچکا ہے۔ رمضان المقدس کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طورپر منایا جاتا ہے۔
ایرانی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے صرف چند ماہ بعد 13رمضان المبارک1399 کو امام خمینی نے جمعہ الوداع کو یوم القدس منانے کی روایت ڈالی تھی۔ 1998ء میں اسرائیلی پارلیمان نے اس دن کو عام تعطیل کے طورپر اسرائیل میں منانے کا فیصلہ کیا۔
یوم القدس ساری اسلامی دنیا جمعتہ الوداع کے دن مناتی ہے اور مظلوم ومحکوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی جاتی ہے۔ کوئی امام زمان جناب خمینی کو یاد نہیں کرتا جن کی مومنانہ بصیرت نے بہت پہلے بھانپ لیا تھا کہ آل سعود اور ان کے حواری عزت غیرت سب کچھ امریکہ کے پاس گروی رکھ دیں گے۔
یوم القدس ایران میں خاص اہتمام سے منایاجاتا ہے اور مظاہرے کئے جاتے ہیں جو محض اسرائیل کے خلاف نہیں ہوتے بلکہ اس کے مربی و محافظ امریکہ اور اس کے اسلامی وغیراسلامی معاونین کے خلاف بھی کئے جاتے ہیں۔
اس دن کی خاصیت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ 1948ء سے فلسطین پر دنیا کی طاقتور اشرافیہ کے غاصبانہ قبضہ کے بعد امت میں یہ سوچ پروان چڑھتی رہی کہ فلسطین سے منسوب کوئی ایک دن منایا جائے۔ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرکے13رمضان المبارک1399ہجری کو امام زمان آیت اللہ خمینی نے پیغام جاری کیا جس میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طورپر منانے کا اعلان کیاگیا جس کہا گیا تھا۔
میں عرصہ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے متوجہ کررہا ہوں جو حالیہ دنوں میں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کو شدید حملوں سے نشانہ بنارہا ہے۔ خاص طورپر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کی جان لینے کے لئے ان کے گھروں پر بہیمانہ بمباری جاری ہے۔ میں تمام عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست گزار ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لئے متحد ہوجائیں۔ تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن کو یوم القدس کے طورپر منائیں۔ یہ دن شب قدر کی فضیلت بھی رکھتے ہیں اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی بن سکتے ہیں۔ یوم القدس کو عالمی دن کے طورپر منتخب کیا جائے اور ایک پروگرام کے ذریعے بین الاقومی طورپر منایا جائے تاکہ تمام مسلمان دنیا اپنے فلسطینی بھائیوں بہنوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔ اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو اہل کفر پر کامیابی عطا فرمائے۔‘‘
ایران میں اس دن پر صدر ایران، تہران میں یوم القدس کے مرکزی اجتماع سے خطاب کرتے ہیں۔ یہ اس نوعیت کی پوری اسلامی دنیا میں واحد تقریب ہوتی ہے۔ ورنہ دیگر ممالک میں سرکاری سطح پر زیادہ تر بیان بازی تک ہی خود کو محدود رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس دن کو بھرپور طورپر منایا جاتا ہے جو پاکستان کے عوام کی القدس الشریف اور فلسطین کے ساتھ یکجہتی اور ان سے دلی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
انیسویں صدی کے آخر سے جاری تنازع میں ایک طرف صیہونی ہیں اور دوسری طرف عرب ہیں۔ ایک طرف وہ قوم ہے جسے رب تعالیٰ نے اپنی بے حساب رحمتوں، نعمتوں اور برکات سے نوازا‘ لیکن یہ وہ قوم ہے جس نے انبیاء علیہم السلام کی نہ صرف تکذیب کی بلکہ ان کے پاک لہو کو بہاکر دائمی عذاب کی مستحق ہوگئی۔
ڈاکٹر اسراراحمد کی باتیں بے طرح یاد آتی ہیں اور روح کو جھنجھوڑ جاتی ہیں، ان کی وہ بلند آہنگ وارننگ اکثر گونجتی رہتی ہے کہ ’’عرب کی تباہی سر پرپہنچ چکی ہے۔‘‘ عربوں کے سینے میں صہیونی ریاست کا خنجر بھونک دیاگیا ہے اور یہ اللہ تعالی کی ’مغضوب علیہم‘ قوم کے ذریعے آئے گا۔ یواے ای کی پرواز کی اسرائیل میں لینڈنگ کی خبر دیکھ کر ڈاکٹر اسرار کی پھر یاد آگئی۔ صہیونی عیاری ومکاری میں ’بی۔جے۔پی، آر۔ایس۔ایس‘ کے بھی باپ ہیں۔ بعض محقیقین کے نزدیک اس غیرمعمولی ذہنی صلاحیت کے پیچھے اس خوراک کا اثر ہے جو اللہ تعالی نے اپنی کریمی کے اظہار کے طورپر ’من‘ اور ’سلوی‘ کی صورت نازل فرمائی تھی۔
تنازع کے دوسرے فریق عرب ہیں۔ بعض محقیقن کے نزدیک فلسطینیوں میں محض مسلمان ہی شامل نہیں بلکہ ان میں مسیحی اور دروز بھی شامل ہیں۔
یوم القدس منانے کا اعلان ہوا تو اس وقت کس نے سوچا تھا کہ امریکہ اس قدر کھلم کھلا عالمی قانون اور وعدوں کو یوں ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گا۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادیں محض لفاظی اور دکھاوا رہ گئی ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی اس وقت حالت اس ایس ایچ او کی سی ہے جس کی وردی، مونچھیں، بندوقیں اور نفری صرف بے یارومددگار اور مظلوم کو ڈرانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ وہ طاقتور کے گھر میں بندھی بھیڑ بکری اور یا بھینس کی طرح ایک مال ہوتا ہے جس کا خرچ چوہدری صاحب کی نگاہ عنایت سے جڑا ہوتا ہے۔
ٹرمپ کی اپنی سیاسی بقا صہیونیوں سے جڑی ہے۔ ٹرمپ نے اپنی کامیابی کا صلہ یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طورپر تسلیم کرکے دیا۔ امریکی سفارت خانے کی تعمیر کا کام وہاں جاری ہے جبکہ اس کی تقلید میں دیگر ممالک بھی اپنے سفارت خانے اس شہر منتقل کررہے ہیں جو عالمی طورپر متنازعہ ہے لیکن طاقت کے سامنے اصول، قانون اور انصاف ہار جائیں تو پھر دنیا میں فساد پھیلتا ہے۔ اب جنوبی اردن اور گولان کی پہاڑیوں پرامریکہ اور عالمی ناانصافی دور قیامت کا ابتدائیہ بن چکی ہے۔ اب صہیونیوں میں یہ بات زبان زدعام ہے کہ مسجد اقصیٰ شہید کی جائے۔ جب یواے ای سے براہ راست اور بھارت کی پرواز کی بذریعہ سعودی عرب سیدھی تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اترنے کی خبریں آئیں گی تو خاکم بدہن اس خبر کو بھی پھر خارج ازامکان کیسے کہاجاسکتا ہے؟ کہاوت ہے کہ باڑ ہی کھیت کھانے لگے تو نتیجہ واضح ہوتا ہے۔
ہم یوم القدس مناتے جائیں یہودی اپنے پنجے پھیلاتے جائیں گے تاوقتکہ کوئی صلاح الدین ایوبی اٹھے اور کشتوں کے پشتے لگا دے۔ کوئی اور پیرو کار امام زمان آئے یوم القدس کا گیت گائے۔