کسی بھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ میں طاقتور اور فیصلہ کن اختیارات کے حامل اداروں اور شخصیات کے علاوہ رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے صحافتی اور طاقتور معاشی و کاروباری افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی متضاد مفادات کے مختلف گروہوں پر مشتمل ہے اور یہ گروہ مختلف اوقات میں اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے تابع ہی اقتدار کے کھیل کے اصول و ضوابط طے کرتے ہیں۔ اپنی مخصوص سوچ اور ذہنی ساخت کے مرہون منت ہی ملکی اور بین الاقوامی پالیسیوں کو مرتب کیا جاتا ہے اور اُس پر مذہب ، عقیدے کے علاوہ حب الوطنی کے تصورات سے بھی ہم آہنگ کر دیا جاتا ہے اور وہ افرادیا گروہ اسٹیبلشمنٹ کے رائج شدہ تصورات سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں غداری کا لقب اور دشمن ملک کے ایجنٹ کے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے وہ شخص جو کبھی ملک کا بڑا ہمدرد اور خیر خواہ ہوتا ہے۔ وہ راندۂ درگاہ ٹھہرنے پر سچ مچ ملکی سالمیت کے خلاف کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی کلاسیکل مثال شیخ مجیب الرحمن کی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے تحریک پاکستان میں نوجوان ورکر کے طور پر بڑے جوش و خروش سے کام کیا ، مگر جب مشرقی پاکستان کی علاقائی خود مختاری کا مسئلہ سامنے آیا تو اے کے فضل الحق اور شیخ مجیب الرحمن قوم پرست رہنما بن کر سامنے آئے تو پھر اسی مجیب نے چھ نکات پیش کئے۔ اگر تلہ سازش کیس میں پاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہندوستان کی مدد حاصل کی۔ جہاں یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمن اور بنگالیوں کو درست طریقے سے ہینڈل نہیںکیا وہیں بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو رہا کر کے بنگلہ دیش کو پاکستان مخالف ریاست میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان کے سیاسی میدان میں اسٹیبلشمنٹ 1954ء میں ایک اہم عامل قوت کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے ساتھ معاہدہ سیٹو اور سینٹو کیا اور سویت یونین کے کمیونزم کی یلغار روکنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تشکیل دیا ۔ قائداعظم کی وفات کے بعد سول اور ملٹری بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلہ کن کردار بن کر ابھریں۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنے پر پھیلانے اور اپنی شکل ظاہر کرنی شروع کی۔ آئین سازی کے جمہوری عمل کو تعطل کا شکار کیا اور فرد واحد کی حاکمیت کے تحت 1962ء کا آئین تشکیل دیا گیا۔ بار بار حکومتیں بنائی جاتیں اور توڑ دی جاتیں۔ کبھی ون یونٹ بنایا جاتا تو کبھی اس کو ختم کر دیا جاتا۔ حتیٰ کہ ملک ٹوٹ گیا مگر یحییٰ خان اور اُن کے حواری ملک کے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ ننگ وطن اور ننگ قوم اے ۔ کے نیازی لاہور کا کور کمانڈر بننا چاہتا تھا۔ وہ کس قدر مضبوط اعصاب کا مالک تھاکہ مشرقی پاکستان کے سانحے کو اس نے دل پرنہ لیا اور 87 برس تک زندہ رہا۔
اگرچہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں فوج کا کافی اثر و رسوخ رہا ہے۔ مگر ہندوستان جیسے دشمن کے سامنے ہماری بہادر فوج نے ہمیشہ ملک کا دفاع بڑے زور و شور سے کیا اور لاتعداد شہادتوں کی داستانوں کو رقم کیا۔ ملک کے مغربی فرنٹ پر دہشت گردی کے خلاف ایک لمبی جنگ کو کنٹرول کرنا اور سرحدوں کی حفاظت کرنا اس صدی کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ آج امریکہ بھی پاکستان کے نقطہ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان سے نکل رہا ہے لہٰذا آج پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے واضح ترجیح ہونی چاہئے کہ وہ ماضی کے طالع آزما فوجی ڈکٹیٹرز کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کی پشت پنائی کا تاثر ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ صوبائی خودمختاری کے ساتھ ساتھ ہمیشہ قومی انتخابات آزاد منصفانہ اور شفاف ہونے چاہئیں۔ تبھی اِس ملک میں داخلی استحکام پیدا ہو گا۔ آج ملک میں جو سیاسی عدم استحکام ہے اس کی بڑی وجہ 2013 ء اور 2018ء میں ہارنے والے سیاستدانوں کا شور و غوغا ہے کہ اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ہرایا گیا۔ جس کی وجہ سے آج ہمارے ہاں سیاسی اور جمہوری عمل متنازعہ بن چکا ہے۔ سیاستدان اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ آج کرونا کے بعد پاکستانی معیشت تباہی سے دوچار ہو چکی ہے۔ رواں مالی سال معاشی نمو منفی 1.5 فیصد پر رہے گی۔ بیروزگاری کی شرح 14 فیصد تک جا پہنچے گی۔ 2 سے 7 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی سسک سسک کر گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار یہ ہے کہ ملکی بقا اور سلامتی کے لیے تمام متحارب سیاسی قوتوں کو ایک معاشی اور سیاسی ایجنڈے پر اکٹھا کرے تاکہ پوری قوم اسٹیبلشمنٹ کے مثبت کردار کا دم بھرے اور پاکستان کے قومی ادارے ملکی سلامتی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہیں۔