لاہور (احسان شوکت سے) لاہور میں گاڑیاں، رکشے اور موٹر سائیکلیں چوری کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ رواں سال2021ء کے دوران گزشتہ سواچار ماہ میں شہر کے مختلف علاقوں سے گاڑیاں، رکشے اور موٹر سائیکلیں چوری کے 5ہزار 2 سو 71 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پولیس، سی آئی اے کے اینٹی وہیکلز لفٹنگ سٹاف (اے وی ایل ایس)، اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی موجودگی اور جگہ جگہ ناکوں اور شہر کے داخلی وخارجی راستوں پر چیک پوسٹوں کے باوجود ایسی وارداتیں بڑھ گئی ہیں ۔ 2021ء کے دوران اب تک شہر کے مختلف تھانوں میںگاڑیاں، رکشے اور موٹر سائیکلیں چوری کے 5ہزار 2 سو 68 مقدمات درج کئے گئے۔ جن میں موٹر سائیکل چوری کے 4ہزار 7سو 93، رکشے چوری کے 3سو 60 جبکہ کاریں چوری کے ایک سو 80 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ موٹر سائیکلیں چوری کے مقدمات سٹی ڈویژن 1133، دوسرے نمبر پرصدر ڈویژن میں 1001،، کینٹ ڈویژن میں 718، ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں 688، اقبال ٹاؤن ڈویژن میں 667جبکہ سول لائن ڈویژن میں586 مقدمات درج ہوئے۔ ذرائع کے مطابق تھانوں میں مقدمات درج کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور پولیس مقدمات کے اندراج کی بجائے متاثرہ شہریوں کو تھانے کے چکر لگواتی ہے۔ لہذا گاڑیاں، رکشے و موٹر سائیکلیں چوری کی وارداتوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ چوروںکے بین الصوبائی گروہ بڑے منظم طریقہ سے سرگرم عمل ہیں۔ وہ خیبر پی کے یا دور دراز کے علاقوں میں لے جاکر انہیں مختلف گروہوں کو اونے پونے داموں فروخت کردیتا ہے جبکہ رکشے اور موٹر سائیکلیں نمبر تبدیل کر کے یا پھر انجن، چیسز نمبر ٹمپرڈ کر کے فروخت کرنے اور حصے بخیئے کر کے بلال گنج اور موٹر سائیکل مکینکوں کو فروخت کرنے کا مذموم کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چورگروہ کار کے مالک کا ٹیلیفون اور موبائل نمبر بھی اپنے ذرائع سے معلوم کرلینے کے بعد مالک سے رابطہ کرکے اس سے گاڑی کے عوض منہ مانگی رقم وصول کرنے کے لئے معاملات طے کرتا ہے۔ جو افراد اپنی گاڑی کا تاوان ادا نہیں کرپاتے ان کی گاڑی یا تو اونے پونے فروخت کردی جاتی ہے یا حصے بخیئے کباڑیوں کو بیچ دیئے جاتے ہیں‘ پولیس و قانون نافذ کرنے والے ادارے چوری کی وارداتوں پر قابو پانے کی بجائے خود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔