لاہور (سید عدنان فاروق ) مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو حکومت نے اپنے لئے جتنا بڑا خطرہ سمجھا ہے یہ حکومت کی کمزوری اور بزدلی کی علامت ہے۔ شہباز شریف متحرک سیاسی شخصیت ہیں۔ قید سے رہائی کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کئے اس کے ضرور مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور مستقبل قریب میں بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کی مشکلات بڑھیں گی۔ مڈ ٹرم الیکشن یا ان ہائوس تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں۔ دوسروں کو چور چور کے طعنے دینے والوں کی اپنی میگا کرپشن کی کہانیاں ہر روز منظر عام پر آرہی ہیں، کبھی چینی آٹا سکینڈلز اور اب راولپنڈی رنگ روڈ تبدیلی کو منہ چڑھا رہی ہے، پی ڈی ایم کے اتحاد کو پیپلزپارٹی اور اے این پی کی علیحدگی سے دھچکا ضرور لگا، حکومت کو بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ پی ڈی ایم میں وقتی بے چینی سے اسے فائدہ ہوگا ،موجودہ حکومت نے بھارت کے 5اگست کے اقدامات پر انتہائی کمزوری اور عملی خاموشی اختیار کرکے کشمیر کاز کو اسی طرح ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ، اس جرم کو پاکستانی اور کشمیری عوام کبھی معاف نہیں کریں گے‘ افغانستان میں حقیقی طور پر قیام امن اور کسی پائیدار سمجھوتہ میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ افغان صدر ہیں۔ گزشتہ روز نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ شہباز شریف رہائی کے بعد بیرون ملک جانے کے عدالتی فیصلوں کے بعد اس معاملہ پر طرح طرح کے الزامات اور باتوں کا جواز نہیں تھا، وہ خالصتا علاج کے لئے جارہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جہانگیر ترین گروپ کے معاملہ نے حکومت کی کمزوری میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ وہ اپنے لئے معمولی خطرہ بھی بڑا سمجھنے لگی ہے۔ جس طرح چھٹی کے دن سمری جاری کرکے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی کوشش ہوئی اس سے لگتا ہے کہ حکومت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے شہباز شریف کا بیرون ملک جانا ہے۔ ان کاکہنا تھاکہ حکومتوں کوایک دم کان سے پکڑا کرنہیں اتاراجاتا اسکے لیے ماحول اور وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد دوبارہ آرگنائز ہو جائے گا، دونوں جماعتیں دوبارہ رجوع کررہی ہیں ، تاہم فیصلہ پیپلزپارٹی کو کرنا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کو کمزور کرکے حکومت کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے یا عوام کے مسائل کے حل کے لئے اپوزیشن کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے، اسے سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ افغانستان کی صورتحال سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ جب تک اشرف غنی کی حکومت ہے معاملات کی اصلاح کی کوئی توقع نہیں۔کیونکہ مستقبل کے لئے سب سے زیادہ خطرہ اشرف غنی اور اس کے ساتھیوں کو درپیش ہے۔ اسی لئے وہ افغانستان میں حقیقی طور پر قیام امن اور کسی پائیدار سمجھوتہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ پروفیسر ساجدمیرکا کشمیر کی صورتحال کے حوالے کہنا تھا کہ کشمیر پر ناکام پالیسی کی مثال ماضی میں صرف مشرف کے دور میں ملتی ہے۔
شہباز شریف کی رہائی سیاسی رابطوں کے مثبت نتائج ہونگے : ساجد میر
May 21, 2021