دیکھنا گنوانا مت‘ دولت یقین لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو
(کلیم عثمانی)
حبیب جالب نے کہا تھا کہ
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دُور سے سلام
سی پیک کے حوالے سے گرم سرد خبریں پاکستانی میڈیا کی روزانہ زینت بنتی رہتی ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ سی پیک بہرحال ’’پیک‘‘ قطعاً نہیں ہوا۔ ادارے اس کے گارینٹر ہیں۔ اس کی تکمیل اور اپنے جوبن پر حرکت میں ٹائم لائن پر یقیناً فرق پڑا ہے مگر وہ اتنا غیر معمولی نہیں ہے کہ اسے کور نہ کیا جا سکے۔ مہنگے قرضوں کے کچھ پورشن کے حوالے سے تشویش ضرور پائی جاتی ہے۔ جس پر دونوں طرف کی حکومتیں رابطے میں ہیں۔ قوی امکان ہے کہ اس الجھتی گتُھی کو بروقت سلجھا لیا جائے گا۔
ایک بات ضرور ہے کہ سی پیک منصوبوں کے بعد پاکستان میں توانائی کی کمی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی جبکہ مستقبل کے وسط مدتی اور طویل المدتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ بطور خاص ڈیمز اور ہائیڈرو پاور کے شعبے میں دونوں ملکوں کے مابین پہلی بار بہت قربت بڑھی ہے۔ تربیلا فورتھ توسیع 1420 میگاواٹ کی تکمیل ہو چکی ہے جبکہ ففتھ بھی تقریباً اتنی ہی پیدا وار دے گا اور اگلے تین سالوں میں یہ بھی مکمل ہو جائے گا۔
نیلم جہلم 969 میگاواٹ کا منصوبہ چینی کمپنیاں مکمل کر چکی ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا کمال‘ ون آف پاور منصوبہ ہے۔ جس پر 515 ارب روپے لاگت آئی ہے جبکہ تقریباً ڈھائی ارب ڈالر کا کوہالہ ہائیڈرو پروجیکٹ 1124 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ یہ 2025 ء میں منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ جبکہ بیلٹ روڈ انیشیٹو کے تحت پاکستان اور چین کے مابین اسٹریٹیجک اہمیت کی اعلیٰ معیار کی سڑکیں بن رہی ہیں۔ جو دو مختلف روٹس سے چین کو گوادر اور کراچی سے جوڑیں گی جبکہ ان کے اطراف میں اور قریب ترین جگہوں پر اہم صنعتی زون بھی بننا شروع ہو گئے ہیں جبکہ ریلوے کی اپ گریڈیشن بھی اس کا حصہ ہے۔ اس کے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کو جوڑنے کے لئے بھی اہم رابطہ سڑکوں پر الگ سے کام جاری ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی تعاون بھرپور انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ہوائی جہازوں سے لے کر بحری جہازوں کی مشترکہ پیداواری صلاحیت نے خطے میں طاقت کے بگڑتے توازن کو برقرار رکھنے میں بہت مدد کی ہے۔ فضائیہ اور بحریہ کی طاقت میں جے ایف تھنڈرز‘ نئی آبدوزوں اور جنگی بحری جہازوں سے ان دو محاذوں پر مقابلہ بہترین ہو گیا ہے جبکہ میزائل اور دوسرے بری حربی سامان میں دونوں ملکوں میں پہلے ہی سے مسلسل تعاون جاری ہے۔
سی پیک میں زراعت کے حوالے سے تعاون اور اضافہ اور تیزی بہت ضروری ہے۔ معیاری چینی ٹیکنالوجی کا حصول اور تعاون ناگزیر ہے۔
چینی دوستوں کو سروسز سمیت آئی ٹی اور دوسرے شعبہ جات میں کوالٹی کے حوالے سے نظرثانی کرنا ہو گی۔ ایک خاص معیار سے نیچے کی چیز پاکستان بھجوانے پر پابندی ہونی چاہئے۔ یقینی طور پر اس ضمن میں پاکستانی حکومت اور اداروں کو لازمی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر انجیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ‘ پی این کیو سی اے پی سی ایس آئی آر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ پی اے آر سی کو چین سے زرعی بیجوں ، بطور خاص کاٹن پر تعا ون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ کسان یہاں اعلیٰ کوالٹی کپاس کی اچھی پیداوار حاصل کر ے ۔ جبکہ دیگر فصلوں کی پیدوار بھی بڑھانی ہو گی ۔ پاکستان کا بجٹ خسار ہ یہاں سے مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے جبکہ زرعی اجناس ، سبزیوں ، فروٹ جڑی بوٹیوں کی افزائش ، پیکنگ اور ویلیوایڈیڈ پر کام کرنا ہو گا۔ ٹیکنالو جی اس کا استعمال اور ہنر مند افرادی قوت پر چینی تجر بات سے بہت زیادہ سیکھنے کی ضرورت ہے اس پر بہت زیادہ سنجیدگی در کار ہے ۔ ہمار ی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو اس ضمن میں بطور خاص چینی حکمران پارٹی کیمونسٹ پارٹی سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیسے اپنے اہداف مقرر کرتے ہیں۔ اور پھر ہر دو سال میں دو سے چار بار ملتے ہیں، یہ مشاورتی عمل مرکز ، صوبوں اور شہری حکومتوں کے مابین ہو تا ہے یہ بہت ہی عجیب بات ہے کہ وہ اپنے اہداف ہمیشہ وقت سے پہلے حاصل کرتے ہیں انہوں نے اپنے مثالی نظم و ضبط اور بہترین منصوبہ سازی سے ایک ارب چالیس کروڑ لوگوں کو نیچے سے اوپر اٹھا دیا ہے وہ ترقی کے ثمرات سے خوب فیض یا ب ہو رہے ہیں انہوں نے خط افلاس کو ختم کر دیا وہ اب نئی منزلوں کی جانب گامز ن ہیں ہمیں ریلوے کے حوالے سے ان سے ، جدید ریلوے نظام پر کام کی ضرورت ہے ہمیں پرانے نظام کے ساتھ جدید سپر ٹرین سسٹم دینا چاہیے ، چینی ٹرانسپورٹ نے بسوں اور ٹرکس میں پاکستان میں اچھی مارکیٹ بنا ئی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم چینی انظامی ماڈل سے سیکھیں ، ان کی حکمران پارٹی کی سوچ اپنے عوام فلاحی و بہبود کے لئے اپنائیں ،ہمیں چین سے بہتر تجارتی معاہدوں کی ضرورت ہے جو کہ متوازن ہوں اور جس میں دونوں کا فائدہ ہو چین کے ساتھ مختلف تعلیمی پروگرامز اور نوجوان نسل کے رابطوں سے ایک دوسرے کو مزید سمجھنے میں کافی مدد ملی ہے چینی تعلیمی و ظائف اور اس کے نتیجے میں فارغ التحصیل طلبا نے وطن واپس آکر اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس طرح سے صحافیوں ، سمیت مختلف پروفیشنلز کے باہمی رابطے بڑھنے سے دونوں ملک کے عوام اور ذمہ دار اور قریب آئیں گے۔
پاکستانی حکومت کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر توجہ دینی چاہیے۔ جبکہ ہائی ٹیک، شعبے میں چینی تجربے اور مہارت سے بہت استفادہ کرنا چاہیے۔ کرونا سے نمٹنے میں چین کی مہارت اور محنت قابل داد ہے۔ جبکہ پاکستان سے ان کا تعاون بے مثال ہے۔
ہمیں چین کے ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے کے حوالے سے اہم ترین منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ تیز ترین اور محفوظ شیمٹ اور بار بارداری پر ابھی سے کام کرنا ہوگا۔
ہمارے پاس اس حوالے سے افرادی قوت کی کمی نہیں ہے۔ ہمیں کارگو کمپنیاں اٹھانا ہونگی۔ ہمیںچین کی ترقی کو رول ماڈل بناتے ہوئے اپنے مختلف شعبہ جات میں ترقی کے لئے جہاں منصوبہ بندی کرنا ہے۔ وہیں ہنر مند افرادی قوت کی تربیت پر جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
یورپ نے مل کر ترقی کی تھی ہم یہاں دنیا کی تقریبا نصف آبادی ہیں۔ چین جو کہ 20 فیصد دنیا کی آبادی ہے۔ اس کی بے مثال ترقی ہمیں دعوت دے رہی ہے کہ ہم بے ترتیب، سست اور کمزور منصوبہ بندی کو ترک کرکے چین اور چینی بھائیوں سے مل کر اپنے لوگوں کے لئے نئی خوشحالی، پرامن اور ترقی یافتہ دنیا بنائیں۔ ’’خط افلاس‘‘ نام کا لفظ ہی اپنی محنت سے مٹادیں۔ اپنے وسائل کو مربوط منصوبہ بندی سے اس طرح استعمال کریں کہ مسائل ہی نہ رہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو سی پیک، سیاسی جماعتوں کو کمیونسٹ پارٹی بنانا اور حکومتوں کو چاہنز گورننس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وسائل کا رخ عوام کی طرف کرنا ہوگا۔ منصوبوں، کاروبار، کھیلوں سیمت ہر شعبے میں آسانیاں باٹنا ہونگی۔ ٹیلنٹ کی قدر کرنا ہوگی تاکہ ہم اپنے دوست چین کے بافخر دوست اور بہترین پڑوسی ہوں۔
ستارے ڈوب رہے تھے کہ چشم یار سے ہم
نوید صبح کی تازہ کرن اٹھا لائے
( سیلم کوثر)