میرواعظ مولوی فاروق کا یوم شہادت

 دیوار برلن چھ ماہ پہلے ٹوٹ چکی تھی،تبدیلی کی تیز ہواچل نکلی تھی۔مشرقی یورپ کے ملک ایک ایک کر کے روس کے چنگل سے آزاد ہورہے تھے۔بھارت کو خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں کشمیر کے مسلمان بھی نہ اٹھ کھڑے ہوں۔اس نے جنوری اکانوے میں کشمیر میں مزید فوج داخل کردی۔اور پھراس نے ایک سازش تیار کی کہ اگر کشمیر کے بطل حریت کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو کشمیریوں کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ۔
انیس سو نوے کا سال اور آج  اکیس مئی کا دن تھا ۔تین نوجوان سری نگر میں میر واعظ کے گھر میں چپکے سے داخل ہوئے انہوں نے وزیٹر بک میں اپنے ناموں کا اندراج کیا اور اندرسٹڈی روم میں چلے گئے جہاں میر واعظ ،مولوی فاروق تن تنہا تلاوت میں مصروف تھے۔تینوں ملاقاتیوں نے میر واعظ پر اندھا دھن فائرنگ شروع کردی ،کمرہ خون سے لت پت ہوگیا ۔میڈیکل رپورٹ کے مطابق میر واعظ کو بارہ گولیاں لگیں تھیں۔دن کے پچھلے پہر میر واعظ کا جنازہ اٹھا ،جنازے میں ایک لاکھ لوگ شامل تھے ،کسی اشتعال کے بغیر بھارتی فوج نے جنازے کے شرکاء پر فائرنگ کھول دی ۔تیس افراد موقع پر شہید ہوگئے ۔اور دو سو افراد کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا ۔ بھارت کی تاریخ کا یہ سیاہ ترین دن تھا ۔
بھارت جس تحریک آزادی سے خوف زدہ تھا اس کا لاوا پھوٹ نکلا۔کشمیر کی وادیاںآزادی کے نعروں سے گونج اٹھیں ،کشمیریوں کی یہ تحریک آزادی  ان کے زور بازو کا نتیجہ تھی۔کیونکہ ان کی بھی خواہش تھی کہ وہ مشرقی یورپ کے ملکوں کی طرح غلامی کے چنگل سے نکلیں ۔بھارت نے میر واعظ مولوی فاروق کو راستے سے ہٹا تو دیا لیکن پھر گھر گھر سے مولوی فاروق اٹھا ،کوہ و دمن سے مولوی فاروق نے جنم لیا ۔بھارتی فوج کی شقاوت کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے میر واعظ کو شہید کرنے والے تین نوجوانوں کی شناخت  صیغہ راز میں رکھی ۔بھارتی فوج نے میر واعظ کے گھر سے وزیٹر بک بھی اپنے قبضے میں لے لی تھی تاکہ کسی کو یہ پتا نہ چل سکے کہ قاتلوں نے کن ناموں سے دستخط کیے تھے۔اس سے ہر کشمیری سمجھ گیا کہ میر واعظ مولوی فاروق کی شہادت کے پیچھے بھارت کے مذموم عزائم کارفرما ہیں ۔
تحریک آزادی کشمیر میں اب ایک نیا خون شامل ہوچکا تھا ۔پلوامہ کی پہاڑیوں اور شوپیاں کے جنگلوں سے جذبوں سے لبریز نوجوانوں کے لشکر سر بکف اٹھے ،وہ ہر صورت میں بھارت کی غلامی سے آزادی چاہتے تھے اور باعزت ہر صورت میں ان کو غلام بنائے رکھنے پر بضد تھا ۔یوں بھارتی جبروستم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ۔میر واعظ کا خلا پر کرنے کے لیے ان کے بیٹے میر واعظ عمر فاروق نے حریت کونسل کی کمان سنبھالی، آزادی کشمیر کے لیے جد و جہد کرنے والی تمام تحریکیں اس کے سائے میں متحد ہوگئیں ۔بھارت نے حریت پسند قیادت کو قید و بند کا شکار کیا ۔نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کیا۔سرچ آپریشن کے نام پر عزت مآب خواتین کی عصمتیں تار تار کیں اور گینگ ریپ جیسے  جرائم میں ملوث ہوئے ۔
دو سال قبل پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر کی تقدیر میں آخری کیل ٹھوک دی، اپنے ہی آئین کو روند ڈالا اور کشمیر کو جغرافیائی طور پر ہڑپ کر لیا ۔اس کا تین حصوں میں بٹوارا کردیا تاکہ کشمیری متحد ہوکر کوئی تحریک نہ چلا سکیں۔وادی کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا گیا اور لاک ڈائون کی یہ کیفیت اب تک چلی آرہی ہے۔بھارتی فوج کشمیریوں کی جانوں اور عزتوں سے اس طرح کھیل رہی ہے کہ اس کی بھنک بھی دنیا کو پڑنے نہیں دی جاتی اس لیے کہ پوری وادی میں ٹیلی فون موبائل اور وائی فائی سروس معطل ہے۔
بھارت اور اسرائیل ایک ہی راستے پر گامزن ہیں کہ اپنے عوام پر جتنا ظلم کر سکتے ہیں کریں ،آج فلسطین لہو لہو ہے تو کشمیر کے کوچہ و بازار میں بھی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی سلامتی کونسل جس نے اپنی قراردادوں کے واسطے سے کشمیر میں استصواب منعقد کروانا تھا ۔اس میں بھارت نے نشست سنبھال رکھی ہے اور وہ اس عالمی ادارے میں کشمیر کا ذکر  کرنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ،قدرت کا قانون کے کہ جبر کا سلسلہ ہمیشہ نہیں چل سکتا ۔بھارت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کا احترام کرنا چاہئے ،بھارت کو اپنی عزت کا خود بھی خیال کرنا چاہئے کہ وہ ایک طرف اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔
،دوسری طرف اپنے جوروستم کی وجہ سے جمہوریت کے تحت حاصل ہونے والے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے ۔بھارت کو ہندوتوا،آر ایس ایس اور جن سنگی ذہنیت سے چھٹکارا پانا چاہئے اور آج دنیا کے بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں پاکستان سے جامع اور با مقصد مذاکرات کرکے کشمیر کی آزادی کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھارت ،کشمیر اور پاکستان کی راہنمائی کے لیے موجود ہیں جن کے تحت ایک آزادانہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب کے ذریعے کشمیری یہ فیصلہ کریں کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں ۔برصغیر کے ڈیڑھ ارب عوام کی اکثریت بھوک بیماری اور اب کرونا کے ہاتھوں موت کے چنگل میں گرفتار ہے ۔عوام کے ان بنیادی مسائل کو حل کرنا برصغیر کا ایک بنیادی مسئلہ ہے ۔بھارت ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے بڑے دل کا مظاہرہ کرے اور وہ  کشمیریوں کو آزاد کرکے اپنے آپ کو عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے وقف کردے ۔اقوام متحدہ ستر سالوں سے خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ،بھارت سے بہنے والے دریائوں کا پانی کشمیریوں کے خون سے سرخ ہوچکا ہے،اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں کی فائلوں سے گرد جھاڑنی چاہئے اور اپنے قیام کے مقاصد کی تکمیل کے لیے کشمیر کے مسئلے کو پر امن طور پر حل کروانے میں فوری کردار ادا کرنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن