جس کا کام اسی کو ساجھے۔ یہ کہاوت جدید دور میں اپنا جواز کھو چکی ہے۔احساس مروت آلات کے ہاتھوں کچلے گئے یا نہیں فہم و تدبر کی ایک کھیپ ضرور اپنی نئی شکل میں پھیل رہی ہے ۔پنجابی کی ایک کہاوت ہے ’’جہدے گھر دانے ، اوہدے کملے وی سیانے‘‘ یہاں دانوں سے مراد موبائل فون اور اس کی Apps ہیں۔سماج سدھار تحریک مادر پدر آزاد ہے اور اس کے ہاتھوں کی طرح سر بھی خالی ہے۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے یہ احساس شدید ترین ہو چکا ہے کہ جنگلی ، وحشت زدہ ، تکبر اور انا کے لبادے پہنے کچے پکے اذہان دلیل جیسے اوزار سے قطعا نا بلد ہیں اور خاص طور پر سوشل میڈیا سیل اپنے مفاد کے دفاع میں ہر اخلاقی حد پار کر جاتے ہیں اور سوائے گالی کے کچھ بھی سننے کو تیار نہیں۔وہ جس مہم پر ہیں وہاں فتح ، شکست جیسے الفاظ اخلاقی معنویت سے عاری ہیں نہیں۔گھیراؤ اور مار دو کی پالیسی زیادہ مضبوط ہے۔ رہی سہی کسر آن لائن کلاسز نے پوری کر دی ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی فاصلاتی تعلیم کا تصور موجود ہے اور اس کی کہانی کچھ کچھ الجھی ہوئی ہے۔ کچھ بھی کہنے سے یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ مذہب کی طرح قانون بھی آپ کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس طاقت کا وہ اظہار ہے ، جو پوری دنیا میں موجود ہے تاہم قانون کی زبان نہیں۔طاقت و اختیار کی جنگ اتنی طویل ہے کہ اب دونوں کے معانی بدل چکے ہیں اور لاٹھی لفظوں کے وار میں مصروف عوام کو بھینس کہلوانے پر کوشاں ہے ، بلکہ گدھے ،گھوڑے اور حشرات تک اپنی ٹنڈے ہاتھ میں چابک تھامے لفظوں کی اس جنگ کو بہتی گنگا سمجھانے پر مصر ہیں ، جس کی کوئی عدالت نہیں۔لوح جہاں پر حرف مکرر کی صدا حقیقت سے نا آشنا ہے۔استاد کو خاموش رکھنے کے لیے پہلے پلاٹ تخلیق کیا گیا اور بے راہ روی سے لے کر تشدد کے واقعات کے ہار پہنا کر اور منہ کالا کر کے پتھر مارے گئے اور گلوبل ویلج کے راستے بیرون ملک سے کھلے خط پھیلائے گئے کہ ہمارے استاد وہ نااہل قوم ہے جس کی دھلائی ضروری ہے۔ بات یہاں تک رہتی تو شاید آگ بجھ ہی جاتی لیکن سوشل میڈیا پر یہ راگ بھونپو کی طرح بجنے لگا کہ استاد کا کام پڑھانا ہے
کہنے والے شاید پڑھانا کو حقیقی معانی میں فعل متعدی سمجھتے ہیں اور استاد کو رٹو طوطے کی طرح الفاظ کے ہیر پھیر پر عبور چاہتے ہیں۔پڑھانے میں
تربیت دینا یہاں تک کہ بہلنا سکھانا.
سمجھانا ، بتانا ، اور آگاہ کرنا ہے۔ کمرہ جماعت میں علم سکھانا صرف سبق دینا ، تعلیم دینا.
ورغلانا ، سکھانا ، اکسانا ، بہکانا ، برگشتہ کرنا ہرگز نہیں۔پالیسی ساز استاد کو بند آنکھوں کے ساتھ تعلیمی عمل کو آگہی سمجھتے ہیں اور الٹی پٹی کو فینسی پٹی کہلوانے پر مصر ہیں۔استاد کو وہ کولہو کا بیل سمجھا جاتا ہے جس کی بند آنکھیں معاشرے میں سدھار لا سکتی ہیں۔ایک واقعہ یاد آیا۔ایک دوست نے جب leave studyکے لیے اپلائی کیا تو اس کی درخواست یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ ہم انھیں پڑھانے کے لیے رکھتے ہیں اور یہ خود پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔استاد کی تذلیل کی واقعات پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن ان کو نذر آتش کرنے میں ہی سسٹم کی بقا مضمر ہے۔
اس تواتر سے استاد کو پڑھانے کی مشین ثابت کرنا کم علمی و جہالت کے سوا کچھ نہیں۔اساتذہ کی ٹریننگ کے نام پر بھی جو مذاق کیا جاتا ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں ٹرینرز میں ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جن کے حصہ بقدر جثہ کی اصطلاح خوب رہے گی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ استاد اپنے مزاج اور دل چسپی کے بغیر تواتر سے روح سے عاری تعلیم اندھوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹتا چلا جائے۔آئینہ سامنے رکھے بغیر ب ت پڑھائے ، الٹ بید پڑھائے ، خالی ، تھکن زدہ ، سسٹم کے طمانچوں سے بے حال الٹا سبق ، الٹی پلٹی یا اوندھی سیدھی پٹی پڑھائے۔ نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا :
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں
ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی
یہاں مفلسی سے مراد ذہنی مفلسی ہے۔تعلیم تکرار نہیں، نئے جہانوں کی تسخیر کا عمل ہے جو حقیقی طمانیت اور ذہنی تسکین کے بغیر لا حاصل ہے۔استاد وہ شجر ہے جو نسلوں کی آبیاری کرتا اور سایہ دیتا ہے۔اس شجر کو کاٹنا ، گرانا بند کیا جائے۔اس کی جڑیں مضبوط رہیں گی تو معاشرہ ترقی کرے گا۔اسے ایک جیتا جاگتا اور سوچ و فکر سے بھر پور انسان سمجھیں گے تو ہی مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں گے۔مگر پالیسی ساز کے
بوڑھے توتے کون پڑھا سکتا ہے۔
سنا ہے کروڑوں روپے کے کیمرے لگا اب کمرہ جماعت کی مانیٹرنگ کی جائے گی۔ لگتا ہے یہ کیمرے بھی سٹریٹ لائٹس کے اصول پر کام کریں گے۔ محکمہ تعلیم کو نادان طفل کے ہاتھ کھلونا بنا دیا گیا ہے کہ
اور لے آئیں گے بازار سے اگر ٹوٹ گیا