محمد معین
حافظ محمد عمران
پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت نوجوانوں میں کھیل کے شوق اور جوش و جذبے کے حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے اور ہر دوسرا نوجوان اعلیٰ سطح پر کرکٹ کھیلنے کا خواہش مند ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ملک کا مقبول ترین کھیل ہونے کے باوجود آج بھی نوجوان کرکٹرز کو سہولیات کی کمی کا سامنا ہے لیکن دیگر کھیلوں سے موازنہ کیا جائے تو صورتحال بہت بہتر ہے۔ گزشتہ پندرہ بیس برس کے دوران پاکستان کرکٹ کو زیادہ نقصان دہشت گردی نے پہنچایا جب ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے بین الاقوامی کرکٹ نہ ہو سکی اور پاکستان آئی سی سی کے ایونٹس کی میزبانی سے محروم رہا۔ اس دوران اگر کسی چیز نے پاکستان کرکٹ کو سنبھالا ہے تو وہ پاکستان سپرلیگ کے مقابلے ہیں۔ ہر سال ہونے والے ان مقابلوں سے نہ صرف کچھ نئے کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع میسر آتے ہیں بلکہ نامور کرکٹرز کو بھی اپنا تجربہ نوجوان کرکٹرز تک منتقل کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ اس لیگ سے محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن کرکٹرز کے معاشی مسائل حل ہوئے ہیں۔ گو کہ یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن پھر بھی کرکٹ کھیلنے والوں کے لیے ایک امید ضرور ہے کہ اگر کوئی اچھی کرکٹ کھیلتا ہے ، اچھا تیز بائولر ہے ، اچھی بیٹنگ کرتا ہے ، اچھا آل رائونڈر ہے یا اچھا سپنر ہے تو اُس کے لیے مختصر وقت میں نہ صرف اچھے پیسے کمانے بلکہ دُنیا کو متاثر کرنے کا موقع ضرور ملا ہے۔ پاکستان سپرلیگ کا آغاز متحدہ عرب امارات سے ہوا لیکن اب یہ مقابلے مکمل طور پر پاکستان میں ہو رہے ہیں بدقسمتی سے پی ایس ایل کی وطن واپسی اور اس منصوبے کے منافع بخش ہونے سے جو فائدہ اٹھایا جانا چاہئے تھا ہم ابھی تک اُس میں ناکام نظر آتے ہیں۔ پی ایس ایل کی کامیابی کے بعد اگلا ہدف ڈومیسٹک کرکٹ کے معیار کو بلند کرنے کا ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا ہو نہیں سکا بالخصوص 2018ء کے عام انتخابات کے بعد کرکٹ بورڈمیں ہونے والی تبدیلی سے ملکی کرکٹ کو بھی ریورس گیئر لگ گیا اور آج تک پاکستان کرکٹ مسائل کا شکار نظر آتی ہے حتیٰ کہ کرکٹ بورڈ کے سب سے اہم ساتھی پی ایس ایل فرنچائز مالکان بھی پی سی بی حکام کے رویے سے ناخوش اور دلبرداشتہ دکھائی دیتے ہیں۔ 2018ء سے اب تک بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے بالخصوص کھیلوں کے مواقع اور کھیلنے والوں کی تعداد کم ہونے سے سہولیات میں مزید کمی ہوئی ہے۔ ان حالات میں جب پاکستان کرکٹ بورڈ اپنا کام بہتر انداز میں کرنے میں ناکام نظر آتا ہے تو نوجوان بھی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع تلاش کرتے ہوئے محدود اوورز اور فرنچائز کرکٹ کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال گزشتہ دنوں پاکستان سپرلیگ کی مقبول اور متحرک فرنچائز لاہور قلندرز کے ہونے والے اوپن ٹرائلز میں ہزاروں نوجوانوں کی شرکت ہے ان ٹرائلز کا جائزہ لینے کے لیے انگلینڈ کے سابق فاسٹ بائولر اور یارک شائر کائونٹی کے ایم ڈی ڈیرن گاف بھی اپنی ٹیم بائولنگ کوچ کبیر علی ، پاتھ وے مینجر اظہر اللہ ، نمائندہ کائونٹی آمنہ کے ہمراہ موجود تھے۔ مہمان وفد نے والڈ سٹی میں مسجد وزیر خان ، دہلی گیٹ ، سبیل گلی ، گلی سولجن، شیش محل ، شاہی قلعہ ،بارود خانہ، رائل کچن کی سیر کے ساتھ ساتھ رکشہ کی سواری اور لاہور کے روایتی کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ ٹرائلز کے موقع پر ڈیرن گاف کا کہنا تھا کہ اوپن ٹرائلز کے بارے میں سُنا تو بہت تھا لیکن لاہور قلندرز کے ہائی پرفارمنس سینٹر میں ہونے والے اوپن ٹرائلز میں ہزاروں کرکٹرز کی شرکت متاثر کن ہے۔ میں نوجوانوں کے شوق اور جوش و جذبے سے بہت متاثر ہوا ہوں اتنے سخت موسم میں شدید گرمی کے باوجود کرکٹ سے محبت کرنے والوں کا شوق قابلِ تعریف ہے۔ ہم نے لاہور قلندرز کے پلیئرز ڈیویلپمنٹ پروگرام سے کچھ نئی چیزیں سیکھی ہیں اور ہم یارک شائر میں اسی طرز پر اگست میں ٹرائلز کریں گے۔ میں نوجوانوں میں کرکٹ کے شوق نے بھی متاثر کیا ہے جبکہ جتنا وقت میں نے یہاں پر گزارہ اور تاریخی مقامات کی سیر کی وہ بھی یاد رہے گا میری خواہش تھی کہ لاہور میں کچھ زیادہ وقت گزارتا بہرحال میں اچھی یادوں کے ساتھ واپس جا رہا ہوں اور یہ اُمید کرتا ہوں کہ لاہور قلندرز اور یارک شائر کے مابین پلیئرز ایکسچینج پروگرام سے دونوں ملکوں کے کرکٹرز فائدہ اُٹھائیں گے۔ یارک شائر کی ٹیم فروری میں پاکستان آنا چاہتی تھی لیکن کرونا کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستان آ کر کرکٹ کھیلنے یا کمنٹیٹرز سے جب بھی بات ہوئی انہوں نے بہت اچھے الفاظ میں اپنے دورے کا ذکر کیا۔ لاہور قلندرز کے ہائی پرفارمنس سینٹر جیسی سہولیات تو یارک شائر میں بھی نہیں ہیں۔ 2000 ء میں انگلینڈ ٹیم کے ساتھ پاکستان میں کرکٹ کھیلنے آیا اور کراچی میں ہم نے ٹیسٹ میچ جیتا تھا اُس وقت بھی قیام بہت اچھا رہا اور اب بھی وقت شاندار گزرا ہے پاکستان سپرلیگ میں بائولنگ کا معیار بہت اچھا ہے اس وقت حارث رئوف میرا پسندیدہ بائولر ہے ، شاہین آفریدی شاندار کرکٹر ہے ، لاہور قلندرز نے اُسے قیادت کا موقع دیا اور شاہین نے اس انتخاب کو درست ثابت کیا۔ انگلش پلیئرزپی ایس ایل کھیلنے کے لیے پاکستان آتے ہیں اور اب وہ انگلینڈ ٹیم کے ساتھ دورہ پاکستان کے منتظر ہیں۔ ہر دور میں بہترین فاسٹ بائولرز نے پاکستان کی نمائندگی کی ہے اور یہ سلسلہ رُک سکتا۔ قلندرز کے اوپن ٹرائلز میں نوجوان فاسٹ بائولر طیب عباس نے بھی بہت متاثر کیا ہے۔
ٹیسٹ کرکٹر فخر زمان کہتے ہیں کہ ملک میں ٹیلنٹ نہیں سہولیات کی کمی ہے، کرکٹ کی بہترین سہولیات نچلی سطح پر ہونی چاہئیں۔ میرے خیال میں ڈسٹرکٹ کی سطح پر لوکل گورنمنٹ کے لیے نوجوانوں کو کھیل کی بہتر سہولیات فراہم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ ہر صورت ہونا چاہئے اگر لاہور قلندرز ایک فرنچائز ہو کر یہ کام کر سکتی ہے تو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کیوں نہیں کر سکتی۔ نوجوانوں میں کرکٹ کا بہت شوق ہے انہیں بہتر سمت میں رہنمائی اور تربیت کی ضرورت ہے لاہور قلندرز کے اوپن ٹرائلز میں بڑی تعداد میں نوجوانوں دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں، یہ کھیل سے محبت کرنے والوں کا اجتماع تھا یہی پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہے جس انداز میں لوگوں نے محبت کی ہے اُس سے میرے جوش و جذبے میں بھی اضافہ ہوا ہے جب میں بھی پہلی مرتبہ پاکستان کے کسی کھلاڑی سے ملا تھا میرے بھی یہی جذبات تھے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہم ملک سے باہر کرکٹ کھیلتے ہوئے ہوم گرائونڈ کی بہت کمی محسوس کرتے تھے کیونکہ جس طرح پاکستان کے شائقین جذباتی انداز میں کرکٹ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں ایسا بہت کم ملکوں میں ہوتا ہے اپنے میدانوں پر کرکٹ کھیلنے کا الگ ہی مزہ ہے اور اب ہم ہوم گرائونڈ پر کرکٹ کھیلنے کا حقیقی مزہ لے رہے ہیں۔ لاہور قلندرز کے چیف آپریٹنگ آفیسر ثمین رانا کہتے ہیں کہ دورہ پاکستان پر یارک شائر کے ایم ڈی ڈیرن گاف اور ان کے ساتھیوں کا مشکور ہوں ٹرائلز کی کامیابی کے انعقاد میں سب نے اپنا کردار ادا کیا یہاں سے منتخب ہونے والے کھلاڑیوں میں سے 5 کرکٹرز کو شاہین آفریدی کے والد کے نام پر سکالر شپ دی جائے گی میرے خیال سے یہ نوجوان کرکٹرز میں کھیل کا شوق پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ رواں برس نوجوان کرکٹرز کو نیٹ پریکٹس کے لیے یارک شائر بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ نوجوان کرکٹرز دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ وقت گزاریں۔