صحت مند غذا گراوٹ کا شکار

May 21, 2022

رنگ برنگے خوشبو دار اور قدرتی مصالحہ جات میں کھلے  اور مضر صحت رنگوں، برادے اور کیمیکلز کی ملاوٹ عام ہوچکی ہے

’’غذاکی فضا سوگوار ہے‘‘
تحریر طلحٰہ ملک
دور حاضر میں صحت مند غذاؤں کا کلچر فاسٹ فوڈ کے استعمال سے گراوٹ کا شکار ہوتا جارہاہے۔ غرضیکہ ہماری روایات بھی روز بروز دم توڑتی نظر آرہی ہیں مگر ان پر سوچنے کا وقت کسی کو نہیں ہے۔سائنس کی ترقی نے جہاں اولادِ آدم کیلئے بے بہا آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں مشکلات کے انبار بھی لگائے ہیں۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ان کرامات سے استفادہ تو حاصل کیا جارہا ہے مگر مشکلات کا سبب بھی سائنسی ایجادات کو ہی گروانا جارہاہے۔ ایک دہائی قبل ملک  کے ہر کونے میں بم دھماکوں کی گونج سے ہر طرف فضا سوگوار  اور سکیورٹی  کا مسئلہ درپیش تھا مگر  حالیہ برسوں میں خوراک کے شعبے میں عدم تحفظ کا احساس ایک نیاچیلنج  بن کر سامنے آ رہا ہے۔ہمارے جیسے معاشروں میں ملاوٹ سے پاک اور صحت بخش اشیائے خورونوش کی فراہمی کسی خواب سے کم نہیں ۔ ملاوٹ سے پاک دودھ کا حصول مشکل ترین مرحلہ بن چکا ہے۔ خصوصاًشہری علاقوں میں ملاوٹ سے پاک دودھ کا ملناکسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ روزمرہ اشیائے خورونوش میں مکمل غذا سمجھے جانیوالے دودھ کی بات ہو یا پھر مشروبات کی۔ہر جگہ جعلساز اور صحت دشمن عناصر کا تلاطم نظر آتا ہے۔ جدید مشینری اور کیمیکلزکے استعمال سے جعلی دودھ منٹوںمیںتیارکرلیاجاتاہے۔
فارملین،میلامائن،یوریا،صابن،آئل اور سرف کے استعمال سے دودھ تیار کیا جارہا ہے۔ پانی جو اللہ تعالیٰ کی اولین نعمتوں میں  شمار ہوتا ہے کئی بیماریوں کا باعث بن رہاہے گندے پانی کا استعمال ہیضہ،ٹائیفائیڈ اور پیٹ کی متعددبیماریوں کا باعث بنتاہے۔
انواع واقسام کی سبزیاں، پھل جو پاکستان کا حسین قیمتی اثاثہ اور اللہ کا بے حد کرم جانا جاتاہے۔ اب آلودہ اور سیوریج زدہ پانی سے اگائی جارہی ہیں۔ روزمرہ استعمال کی سبزیوں کو اب تو شہروں اور دیہاتوں میں یکساں عمل سے گزارا جارہا ہے۔ غیر موسمی پھلوں کو پکانے یا تیارکرنے کا عمل توسمجھ میں آتاہے مگر اب موسمی پھلوں کو بھی جلد پکانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ موسم گرما کی آمد ہے آم جگہ جگہ نظر آئے گا۔بد قسمتی سے اسے بھی مختلف کیمیکلزلگا کر مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔صحت دشمن منافع خور عناصر پکانے کے جلد عمل کیلئے مختلف کیمیکلز کا سرعام استعمال کرتے ہیں۔ 
مٹن ہو یا بیف جانورں کاگوشت جو بھرپوروٹامنز کا حامل ہے اب پتہ نہیں کن کن بیماریوں کود عوت دے رہاہے۔  لوگوں کی جیبوں میں ڈاکہ ڈالنے کے علاہ صحت  کو بھی داؤ پر لگایا جا رہاہے۔ آئے روزمردہ بیمار جانوروں کے گوشت کی خبریں زبان زدِ عام ہورہی ہیں۔ مردہ مرغیوں کی سپلائی بھی اپنے عروج پر ہے۔کبھی سوائن فلو کا خدشہ توکبھی دوکاندار بیماراور لاغر مرغیوں کا گوشت فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ 
برِ صغیر کی سوغاتوں میں شامل ہونیوالے مصالحہ جات بھی ملاو ٹ مافیا کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ رنگ برنگے خوشبو دار اور قدرتی مصالحہ جات میں کھلے اور مضر صحت رنگوں، برادے اور کیمیکلز کی ملاوٹ اب عام ہوچکی ہے۔ سرخ مرچوں، ہلدی میں برادہ رنگ اور پتہ نہیں کیاکیا ہمیں مصالحوں کے نام پر کھلایا جاتاہے۔ ان مصالحوں کا استعمال معد ے اور انتڑیوں کی بیماریوں کا باعث بن رہاہے۔ روزمرہ استعمال میں آنیوالے آئل کے نرخ تواب آسمانوں کو چھورہے ہیں مگر جانوروں کی انتریوں کو بڑے بڑے کڑاہوں میں پگھلا کر انسانوں کو صحت بخش آئل کی پیکنگ لگا کر فروخت کیا جارہا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج والامحاورہ یاد آرہا ہے۔ صاف پانی بیچنے والی کمپنیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں مگرپھر بھی صحت بخش پانی نایاب ہے۔ ملٹی نیشنل بر انڈز سے لے کر عام دوکانوں پرملنے والے پانی میں بھی مکمل قدرتی خصوصیات ملنے سے قاصر ہیں۔ مشروبات کی طویل فہرست جو دلکش رنگوں اورفلیورزمیں باآسانی مل جاتی ہیں،کاربونیٹڈ ڈرنکس کا بازار ہر طرف گر م ہورہا ہے۔جو سزکے نام پر بننے والے زہر نے ہمارے بچوں کو جسمانی وذہنی معذور بنانا شروع کردیا ہے۔ اوپن مارکیٹ کے نام پر ہمارے نسلوں کی صحت داؤ پر لگائی جارہی ہے۔
ملک کے تمام صوبو ں میں حالات تو یکساں نظر آتے ہیں مگر صوبہ پنجاب میں فوڈ اتھارٹی قدرے متحرک نظر آرہی ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے کا م کرنیوالے ادارے نے اگر چہ کچھ منظم قوانین بنائے ہیں مگر ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ کھلے مصالحوں کی فروخت پر مکمل پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ نام نہادانرجی ڈرنکس بیچنے والوں کی جعلسا زی کو بھی بے  نقاب کیاہے۔ ایسے ہی عوام دشمن عناصر اپنے مزموم مقاصد اور جعلسازی کو چھپانے کیلئے حکومتی اداروں اور مشینری کو بدنام کرنا شروع کردیتے ہیں۔جو نہائت گھناؤنا فعل ہے۔پنجاب میں مختلف دوکانوں پر لگے سبز وسفید رنگ کے لائسنس اس ادارے کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف کام کرنیوالے ملازمین کے میڈیکل ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری نہ کرنیوالوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں بھی کی جارہی ہیں۔ ملاوٹی دودھ فروخت کرنیوالے صحت دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے شہروں کے داخلی راستوں پر جدید مشینوں سے دودھ چیک کرنا یہ احساس دلاتا ہے کہ امید ابھی باقی ہے۔کاوشیں تو کی جارہی ہیں مگر پانی سر سے گزر تا جا رہا ہے۔ملک بھر میں محفوظ خوراک کی فراہمی یقینی بنانیوالے اداروں کی استعدادکار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری سرحدوں کے اندرچھپے صحت دشمن عناصر کے مکروہ چہرے جلد از جلدبے نقاب کیے جاسکیں۔ دوسرے صوبوں کی بھی فوڈ ریگولیرٹریزکا ماڈل اگرچہ بعد میں آیا ہے مگر کام کی برق رفتار ی اور قوانین پر عمل داری جلد ممکن بناناوقت کا تقاضا ہے۔صوبائی حکومتوں کوخوراک سے وابستہ اداروں پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے تاکہ ہم صحت مند غذا کے کلچر کو دوبارہ فروغ دے سکیں کیونکہ ابھی "غذا کی فضا سوگوراہے"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
 نفسیاتی مسائل مریض کیساتھ ہمدردی اور  علاج کا تقاضا    
پاکستان کی آبادی مسلسل تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ میں مختلف وجوہ کی بنا دماغی، ذہنی اور نفسیاتی امراض کے شکار لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور خودکشیاں کرنے کا رحجان بھی کافی حد تک خطرناک صورت اختیار کر تا جا رہا ہے اور بے انصافی بھی ہر طر ف ہورہی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر ان امراض کا شکار لوگ ہمدردی کے مستحق ہیں،یہ مرض علاج  معالجے کا تقاضا کرتا ہے ۔جس کے لئے زیاد ہ سے زیادہ طبی ماہرین خاص طور پر سائیکولوجسٹس کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے تحت لاہور یونیورسٹی میں اس موضوع پر ہونے والی ایک تحقیق میں نتائج اخذ کئے گئے ہیں کہ اس اس شعبے میں علاج معالجے کیلئے ماہرین کی تعداد اس وقت بہت کم ہیں۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ آئندہ نوجوان خواتین بھی اس فیلڈ میں آ رہی ہیں۔
 لاہور یونیورسٹی کے زیر اہتمام اس موضوع پر  مقالے میںآسان الفاظ میں سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ لوگ اپنے آپ کو کیوں نقصان پہنچاتے ہیں اور ان میں احساس محرومیت کیوں پائی جاتی ہے ؟ یعنی لوگ اپنی زندگی اپنے ہاتھوں کیوں ختم کرتے ہیں اور خودکشیاں کیوں کرتے ہیں ؟ ایک ماہر اور تعلیم یافتہ سائیکولوجسٹ کے طور پر ذہنی اور نفسیاتی امراض کے علاج کے ساتھ ساتھ بے انصافی کے شکار لوگوں کے ساتھ بھرپور طریقے سے کام کر نے کے مواقع کا جائزہ بھی لیا گیا۔
 تھیسز کے حوالے سے ریسرچ کرتے ہوئے ان اہم سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کر گئی ہے کہ لوگ اپنے آپ کو کیوں نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور اکثر اوقات اپنے آپ کو کیوںختم کرنا چاہتے ہیں۔معاشرتی سطح پر رشتہ داریوں میں اس قدر سرد مہری  کا جائزہ لے کر اس بات کی وجوہ تلاش کی گئی ہیں کہ ان جذباتی زخموں پر مرہم رکھنے کی کسی میں طاقت کیوںنہیں ؟ اور لوگ کیوں ایک دوسرے کو پریشانیوں اور دماغی امراض سے دوچار کرتے ہیں اور دوسروںکے لئے مسرتوں کا باعث نہیں بنتے ہیں۔ 
معاشرہ میں بڑھتی ہوئی ناانصافیوں کے بارے میں بھی سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ اس بارے میں انصاف کی تلاش میں ایسے لوگوں کے ساتھ بھرپور طریقے سے تعاون کرنا   کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ایک برادری کے طور پر ہم سب کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔ اور مل جل کر اجتماعی بہتری کے لئے کام کرنا چاہئے۔ انفرادی طور پر ہم کچھ نہیںجبکہ اجتماعی طور پر ہم طاقت بن کر دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
 ایک ماہر نفسیات کے طور پر سرکاری سطح پر  علاج معالجے کے ساتھ ساتھ  ہمارے ہاں پرائیویٹ پریکٹس کے مواقع بھی موجود ہیں  تاکہ ذہنی اور دماغی امراض کے شکار ہر عمر کے لوگوں کے مسائل اور ان کی تکالیف کا با آسانی ازالہ ہو سکے۔ تحقیق میں ماہر نفسیات کی اہمیت کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے کہ متعلقہ شعبے کے ماہر کو دوسروں کی تکالیف اور باتیں، توجہ اور دھیان سے سننے کی مہارت حاصل ہوتی ہے اورمتاثرہ  لوگ اپنی تکالیف اور امراض بیان کرکے ، مشورے پر چل کر ان مسائل کا بخوبی علاج کر سکتے ہیں۔ انسانی خدمت کا یہ ایسا شعبہ ہے جس میںجو لوگ خلو ص کے ساتھ مریضوں کا علاج کا نیک ارادہ رکھتے ہیں، خدا اسے ضرور کامیابی عطا کرتا ہے۔
زونیرہ قیوم ،لاہور یونیورسٹی
 

مزیدخبریں