مملکت خداداد پاکستان ایک بہت بڑا عطیہ خداوندی ہے مگر افسوس ہے کہ اس عطیہ کی قدر نہیں کی گئی۔ اپنے اپنے دور کے حکمرانوں نے اس کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا۔ یہاں تک کہ اب یہ صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ کہ پاکستان ڈیفالٹ ہو رہا ہے۔ خدا کرے کبھی بھی ایسا نہ ہو۔ اس وقت پاکستان کی مثال اس مریض جیسی ہے جو جاں بلب ہو مگر اس کے معالج اس کا علاج کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو رہے ہوں۔ اس کے معالج ہونے کے دعویدار اس کے نام نہاد سیاست دان ہیں جوکہ الا ما شاء اللہ حقیقت میں اس ملک کے معالج نہیں بلکہ وہ خود اس ملک کے لیے کینسر کا پھوڑا بن چکے ہیں۔ یہ نام نہاد سیاست دان جاں بلب پاکستان کا علاج کیاکریں گے؟ جبکہ یہ سب مفاد پرست، خود غرض اور کرپٹ ہونے میں ایک دوسرے سے چار قدم آگے ہیں۔ ملکی مفاد یا عوام کو ریلیف دینے میں کبھی بھی ان کو آپس میں متحد ہونے کی توفیق نہیں ہوتی۔ ان کا آپس میں جب بھی اتحاد ہوتا ہے، اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتا ہے۔ ان کا جب بھی اختلاف ہوتا ہے اپنے مفادات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہر پارٹی کے نزدیک دوسری پارٹی ملک دشمن اور عوام دشمن ہے۔ ہر سیاست دان کے نزدیک دوسرا سیاست دان چور ہے مگر یہ اس وقت تک ہے جب تک ان کے مفادات جدا جدا ہوں۔ جونہی ان کے مفادات قدرے مشترک ہوتے ہیں، ان کے ایک دوسرے پر لگائے گئے الزامات خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی صادق اور امین ڈھونڈنا بڑی دور کی بات ہے۔ماضی میں ان حکمرانون نے کمیشن کی جو روایات قائم کیں، لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا، معیشت پہ جو بجلیاں گرائیں، ملکی مسائل کو جو گھائل کیا، پاکستان اور عوامِ پاکستان کے ساتھ یہ کوئی کم ظلم نہیں تھا۔ ملک مقروض ہوتا چلا گیا، مہنگائی نے بڑی دور تک مار ماری، دہشت گردی اور دھماکوں نے ملک کی چولیں ہلائیں، امن و امان کی صورتحال نہایت بگڑی۔ مقروض ملک کو مزید مقروض بنانے کے لیے ریکارڈ قرضے لیے گئے، مہنگائی نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ جاںبلب پاکستان سلیکٹڈ اور امپورٹڈ کے اکھاڑے میں پس رہا ہے۔ امریکی سازش یا امریکی مداخلت جیسے لفظوں کے ہیر پھیر میں بال کی کھال اتارنے کے لیے ماہرین کے مقابلے ہو رہے ہیں۔ عوامی جلسوں میں نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کے ڈانس اور عریانی فحاشی کے ایمان سوز مناظر سے پاک سرزمین کی روحانی اقدار کو مزید تباہ کیا جارہا ہے۔ ان نام نہاد سیاسی پنڈتوں اور ان کے چیلوں کا نہ کوئی وژن ہے، نہ کوئی وزن ہے۔ان کے پاس ملکی مسائل کو حل کرنے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی ان کی ایسی تربیت ہے۔ نہ ان کے ہاں ملک کی خدمت کا کوئی رتی بھر جذبہ ہے، نہ ان میں قوم کی خدمت کا ذرہ بھر احساس ہے، نہ یہ دین سے مخلص ہیں، نہ یہ ملک سے ۔ نئے انتخابات کو مسئلے کا حل سمجھا جا رہا ہے۔ یقینا انتخابات ایک لحاظ سے ضروری بھی ہیں لیکن اگر انتخابات کا چکر لگا کے پھر اسی طرح کے نام نہاد سیاستدانوں نے ایوانوںمیں آ بیٹھنا ہے تو پھر جان بلب پاکستان کے لیے عرصہ حیات مزید تنگ ہو جائے گا۔ ہمارا پہلے دن سے یہ موقف ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل صرف اور صرف نظام مصطفی ﷺ میں ہے اور اس ملک میں نظام مصطفی ﷺ کا نفاذ صرف صالح قیادت کر سکتی ہے۔ چنانچہ اگر ایسے صالحین کاملین، اصحابِ علم و فضل، اربابِ فہم و فراست کو قوم رسہ گیروں، رہگیروں، ڈیروں اور لٹیروں کے مقابلے میں اپنی ترجمانی کا حق دے اور وہ دو تہائی اکثریت لے کر اسمبلی میں پہنچیں پھر آہنی اعصاب اور فولادی جذبے سے ایوان میں ملکی مسائل کے حل کے لیے ایمانی فیصلے کریں جس کے نتیجے میں پاک سرزمین پر نظام مصطفی ﷺ کا عملی طور پر نفاذ ہو جائے تب جاں بلب پاکستان یقینی طور پر روبصحت، توانا اور ناقابل تسخیر ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اَمرِ کن سے ایسے حالات پیدا فرمائے۔