موجودہ گرمی کی لہراور موسمیاتی تبدیلی 

حالیہ گرمی کی شدید لہر کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔جس سے ہیٹ اسٹروک آج کل ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث گرم علاقوں میں زیادہ ترہیٹ اسٹروک ہورہا ہے۔ ہیٹ سٹروک سے زیادہ تر بچے ، بزرگ، مزدور ، کھلاڑی اور موذی امراض میں مبتلا افراد متاثر ہوتے ہیں۔ہیٹ اسٹروک سے تیز بخار، پسینے کا نہ آنا، خشک گرم اور سرخ جلد، بے ہوش ہو جانا، متلی یا الٹی، تیز دھڑکن ہوتی ہے۔ ماہر ین موسمیات کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے، شسپرگلیشئیر واقعے جیسے واقعات سے مسقبل میں بچاؤ، غذائی اور پانی کی قلت سے بچنے کیلئے اقدامات، پانی کے بچاؤ و موجودہ آبی ذخائر کی حفاظت اور جنگلات کے تحفظ کیلئے جامع حکمتِ عملی مرتب کی جائے، پانی کی بچت کے لئے عوامی آگاہی مہم کا آغاز کیاجائے ، حالیہ گرمی کی شدید لہر ’’ہیٹ ویو‘‘اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر ہنگامی  طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے کام کیا جا رہا ہے ، اس حوالے سے  موسمیاتی تبدیلی پر فوری طور پر ٹاسک فورس قائم کردی گئی ہے۔ٹاسک فورس میں متعلقہ وفاقی وزراء ، سیکٹریز، صوبائی چیف سیکٹریز و متعلقہ صوبائی سیکٹریز، چیئرمین این ڈی ایم اے اور دیگر اداروں کے اعلی افسران شامل کئے گئے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے لحاظ سے دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر سب سے ذیادہ متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ملک ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو گلیشیئرز کے بڑے ذخائر ہونے کے باوجود پانی کی کمی کا خطرہ بھی لاحق ہے۔اس سب کے براہِ راست اثرات پاکستان کی زراعت پر مرتب ہوتے ہیں۔اس حوالے سے حکومت کی جانب سے وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے ہنگامی بنیادوں پر جامع حکمتِ عملی مرتب کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ 
  وزیراعظم محمد شہباز شریف نے موجودہ ہیٹ ویو اور جی ایل او ایف کے واقعات سے نمٹنے کے لئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی کوششوں کو تیز کرنے کے لئے ایک قومی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے، موجودہ ہیٹ ویو کے دوران عوامی آگاہی کی اشد ضرورت ہے، یہ ہیٹ ویو جون تک جاری رہے گی، عوام احتیاطی تدابیر اختیار کریں، رواں سال مون سون میں سیلاب کا خطرہ ہے کیونکہ پاکستان میں ہر سال شہروں میں بارش کی وجہ سے سیلاب آتے ہیں اور جاری موسمیاتی تناظر میں یہ خطرہ پہلے سے بڑھ چکا ہے جس کیلئے تمام تر ممکنہ اقدامات مکمل کئے جا رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں گرمی کی لہر میں اضافہ ہوا ہے، طویل اور زیادہ درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے شمال میں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ بڑھتا ہوا ماحولیاتی انحطاط ملک کے لئے ایک خطرے کے طور پر ابھرا ہے اور یہ پوری قوم کے نقطہ نظر کا تقاضا کرتا ہے۔پاکستان نے گزشتہ 20 سالوں میں 152 شدید موسمی واقعات دیکھے ہیں اور اقوام متحدہ نے پاکستان کو سب سے زیادہ خشک سالی سے متاثرہ 23 ممالک میں شامل کیا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔پاکستان زیادہ تر علاقائی گیسوں کے اخراج کی وجہ سے متاثر ہوا ہے جبکہ اسے مقامی ردعمل اور اقدامات کی بھی ضرورت ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور موافقت کو یقینی بنایا جا سکے، بین الاقوامی کانفرنسیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے کوششوں کو آگے بڑھانے کے لئے اہم ہیں، پاکستان میں گیسوں کا اخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ترقی یافتہ دنیا نے قدرتی آفات کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے باوجود ملک کو نظر انداز کیا ہے۔ یہ صرف پانی کی کمی یا درجہ حرارت میں اضافے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ گرمی کی لہر سندھ کی زراعت کو متاثر کرے گی ،تاہم سندھ اور پنجاب میں ایک ایک ہزار سے زائد ہیٹ ویو مراکز قائم کئے گئے ہیں ،ہیٹ ویو کے عوام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے ، تاہم ابتدائی معلومات سے زندگیاں بچانے میں مدد مل سکتی ہے،محکمہ موسمیات نے جون تک ہیٹ ویو کا عندیہ دیا ہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی اس سلسلے میں صوبوں کو ایڈوائزری بھی جاری کر رہی ہے کہ آگاہی ضروری ہے ، اس پر بات چیت کرنا چاہیے جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔ 
واضح رہے کہ پاکستان دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ پانی کے دباؤ والا ملک ہے اور اس کی حیثیت پانی کے تناؤ سے پانی کی قلت والے ملک میں بدل رہی ہے جس کا ملک پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔ حالیہ برفانی جھیل آؤٹ برسٹ فلڈ ’’جی ایل او ایف‘‘ کا واقعہ شیسپر گلیشیر پر بننے والی برفانی جھیل کے پگھلنے کی وجہ سے پیش آیا جس نے قراقرم ہائی وے کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔3044 کل سنگین برفانی جھیلوں میں سے 30-31 جھیلوں کے پھٹنے کے امکانات ہیں۔سابق دورحکومت میں گزشتہ چار سالوں سے موسمیاتی تبدیلی کونسل کاایک اجلاس تک نہیں بلایا گیا جو کہ صوبوں کی نمائندگی کے ساتھ ایک اہم فورم تھا، پاکستان پہلی بار بغیر کسی موسم بہار کے موسم گرما میں داخل ہوا ہے۔ پاکستان میں موسمیاتی سائنس کو آنے والے عشروں کے معاملے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ 2030 کے لئے پیش گوئی کی گئی ہے کہ سائنسی ماڈلز نے متوقع ٹائم لائنز سے10 سال پہلے ہی فعال ہونا شروع کر دیا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح جی ایل او ایف اور دیگر واقعات پیشگی رونما ہو چکے ہیں۔مالی رکاوٹوں کے باوجود محکمہ موسمیات موسم کے بارے میں جدید ترین اپ ڈیٹس اور ایڈوائزری جاری کر رہا ہے۔ تمام حدود کے باوجود یہ ایک مثبت علامت ہے۔ شسپر گلیشیئر 2018 میں بنایا گیا تھا جو ایک بڑھتا ہوا گلیشیئر ہے۔تاہم پانی کے بچاؤ کیلئے عوامی آگاہی مہم کا آغاز کیا جائے۔بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے بھی آئندہ مون سون سے پہلے فوری اقدامات یقینی بنائے جائیں۔موسمیاتی تجزیہ کاروں اور ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہیٹ اسٹروک سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر میں دھوپ میں سر ڈھانپ لیں اور چشمہ استعمال کریں۔پانی اور مشروبات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔شدید گرمی میں جسمانی مشکلات سے اجتناب کریں۔چھوٹے بچوں کو بند گاڑی یا کار میں مت چھوڑیں ۔ ٹھنڈی اور سایہ والی جگہوں پر رہیں۔ نمکیات کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اوآر ایس کا استعمال کریں۔ پیشاب کی گہری رنگت پانی کی کمی کی نشانی ہے۔ پیشاب کا ہلکا رنگت برقرار رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ پانی اور جوسز کا استعمال کریں۔ ایمر جنسی کی صورت میں مریض کو سایہ دار ٹھنڈی جگہ پر منتقل کریں مریض کو فرش پر لٹا دیں ۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن