قومی سلامتی،عوام اور مسلح افواج

کنکریاں۔ کاشف مرزا
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو ہونے والی توڑ پھوڑاورفسادات ناصرف المناک ہیں، بلکہ تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ یقیننا جو کام دشمن نہ کر سکا وہ ایک جتھے نے کر دکھایا، قومی سلامتی کمیٹی اعلامیہ میں ہر سال9مئی کو قومی سطح پر یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیاگیاہے، جبکہ کورکمانڈرز خصوصی کانفرنس میں 9مئی کوعسکری تنصیبات اورسرکاری ونجی املاک کو نشانہ بنانے اورفساداتکے واقعات کی بھرپور مذمت کرتے ہوئیاس عزم کااظہارکیاگیاہیکہ ناقابل تردید شواہد کی بدولت افواج پاکستان عسکری تنصیبات پرحملوں کے منصوبہ سازوں وسہولت کاروں سے واقف ہے، جنکے خلاف پاکستان کے قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے، اورحملہ آوروں سے کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جائے گی، جبکہ عسکری لیڈرشپ کے خلاف پراپیگینڈا پربھی تشویش کا اظہارکیا گیا جسکا مقصد افواج پاکستان وعوام کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے۔ کور کمانڈرزکانفرنس میں تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیضرورت پر بھی زوردیا گیاتاکہ قوم کا اعتماد بحال کیاجا سکے اورجمہوری عمل کومضبوط کیا جاسکے۔دوسری طرف عمران خان نے جناح ہاوس حملے کی مذمت کرتے ہوئیکہاکہ اس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی،ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ 9 مئی کو ہونے والے فسادات کویقیناً سیاہ دن کے طور پریادرکھاجائے گا،لاہور،اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور ودیگر شہروں میں فوجی تنصیبات واملاک پر حملے ملکی سلامتی واستحکام کیلیے دھچکا تھے۔2018 میں پی ٹی آئی کے اقتدارکو ملک میں تبدیلی لانے کیموقع کیطور پردیکھا جا رہا تھا، لیکن وہ اپنے وعدوں کو پورا نہ کرسکی، جس سے مایوسی مزید پھیل گئی اورسیاسی تقسیم گہری ہو گئی۔9 مئی کا دن ایک المناک دن تھا جو کہ کروڑوں پاکستانیوں نے انتہائی غم وغصے میں گزارا۔ ہم سب آج یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کونسا نظریہ تھا، کون شخص تھا یا کونسا جتھا تھا جس نے وطن کے ساتھ والہانہ محبت کو نذر آتش کردیا۔جس نیبھی یہ منصوبہ بندی کی،جتھوں کوتوڑ پھوڑ پر اکسایا، انکی قیادت کی اورجنہوں نے یہ تباہ کن کارروائیاں کی وہ یقیناً دہشتگردی کے زمرے میں آتے ہیں۔جی ایچ کیو، قومی ہیروایم ایم عالم کیعالمی ریکارڈطیاریکی یادگار،  کاکور کمانڈر ہاؤس لاہور، میانوالی کے ایئربیس،فیصل آباد میں آئی ایس آئی کادفتر ، ایف سی اسکول پر بھرپورتباہی کی گئی۔ملک بھر75سال میں کسی جگہ خواہ کتنا گھمبیر واقعہ ہواہوکبھی اسطرح کے فسادات، گھناؤنی اسکیم اورقومی سلامتی کے برخلاف دلخراش مناظرنہیں دیکھے۔پاکستان کے 25 کروڑعوام اپنی افواج کے ساتھ مکمل طور پر وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے اس مذموم حرکت کی بھرپورمذمت کرتے ہیں۔اسطرح کادلخراش منظرکبھی نہیں دیکھا۔ آج اس لمحے تاریخ، عوام اور ملک کے 25 کروڑ کے عوام کا مطالبہ ہے کہ جو بے گناہ ہیں انکو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے جبکہ جو گناہگارہیں انکو قرار واقعی سزاملے۔انفارمیشن وار فیئر اورمسلح افواج کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشیشں وہی ذہنیت ہے جس نے سائفراوربیرونی سازش کی جھوٹی کہانیاں گھڑکرمحب وطن آرمی افسران پرقتل ودیگر جھوٹے الزامات لگائے،شہدائ￿ اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی کی، حساس تنصیبات اور عمارتوں پر حملے کے پیچھے منظم منصوبہ بندی ظاھر کرتاہے، جسیعوامی تعاون سے ناکام بنایا جاناضروری ہے۔پاکستانیوں کی اکثریت پرامن اور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہیں جوتشدد یاانتہا پسندی کی حمایت نہیں کرتے۔جب عرب بہارآرہی تھی توکچھ عالمی طاقتیں پاکستان میں احتجاج کو عراق، شام،سوڈان، مصر، تیونس، لبنان، یمن اور لیبیا میں ہونے والے نتائج کیطرح دیکھنے کیمنتظر تھے۔لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوا،وجہ ہماری مضبوط فوج تھی جوملک کو مضبوطی سے برقراررکھتی ہے۔ 9مئی کوفوجی رہائش گاہوں وتنصیبات پرحملے یقیناًپاکستانی تاریخ کا سیاہ دن ہے جوان خطرات کی یاد دہانی ہے جنکا پاکستان کو دہشتگردی،انتہا پسندی وغیر ملکی مداخلت سے سامنا ہے۔فوجی تنصیبات وسیٹ اپ پرحملہ کرنے والے مجرموں، بگاڑنیاورخلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مزید تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔شہدا کی تصاویر، عمارات وفوجی تنصیبات کو ایک مربوط منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا جسکامقصد ادارے کی ساکھ متاثرکرنااور ادارے کوردعمل دینے پر مجبورکرنا تھا۔ان افسوسناک وناقابل قبول واقعات پر فوج کے رینک وفائل میں بھی غم وغصہ کے جذبات ہیں۔عوامی سطح پربھی بیرونی اسپانسر شدہ اوراندرونی طور پر سہولت یافتہ، آرکیسٹریٹڈ پروپیگنڈہ جنگ پر بھی تشویش ہے۔ دشمن قوتوں کے مذموم پروپیگنڈے کو پاکستانی عوام کی حمایت سے شکست دی جانی چاہییجو ہر مشکل میں ہمیشہ مسلح افواج کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ساتھ ہی سوشل میڈیاکے قواعد وضوابط کیخلاف ورزی کرنے والوں کوسزا دینے کیلییمتعلقہ قوانین پرسختی سے عملدرآمد کیضرورت ہے اورجاری سیاسی عدم استحکام کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلییتمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے جس سیعوامی اعتماد بحال اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی وجمہوری عمل کو مضبوط کیا جا سکے۔سیاسی اختلافات کو محاذ آرائی کیبجائے جمہوری اقدارکے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ملک میں تشدد اور شرپسندی کسی صورت برداشت نہیں اورتشددوشرپسندی کیخلاف زیروٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے، فوجی تنصیبات اورعوامی وشہری املاک کی حرمت کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے۔یقینناقانون وآئین کے مطابق قانون اپنا راستہ اپنائے گا۔ہمیں قانونی، آئینی وانتظامی حوالے سے آئندہ کیلیے ایسے انتظامات کرنے چاہئیں کہ تاقیامت تک اسطرح کا واقعہ دوبارہ کبھی رونما نہ ہوجسنے پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ کوشدید نقصان پہنچا۔وزارت دفاع نے ابتدائی طور پر متعلقہ قانون کے تحت 5 خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز دے دی ہے۔ متعلقہ قانون کے تحت 3 فوجی عدالتیں راولپنڈی اور 2 لاہور میں قائم کرنے کی تجویز ہے۔ آرمی ایکٹ کے دائرہ کار میں آنے والے کیسز کی حیثیت خصوصی ہوگی۔ خصوصی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کاکہنا ہیعام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔فوجی املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں گرفتار4000 سے زائدافراد کے مقدمات آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی عدالتوں میں چلیں گے۔  شرپسند عناصر کی پرتشدد کاروائیوں میں پنجاب بھر میں 170پولیس افسران اور اہلکار شدید زخمی ہوئے۔پنجاب پولیس کے زیر استعمال 197 گاڑیوں کی توڑ پھوڑ، نذر آتش کیا گیا۔پولیس سٹیشنز اور دفاتر سمیت 22 سرکاری عمارتوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔جبکہ تحریک انصاف سوشل میڈیا کے مطابق انکے47 افرادمارے گئے اورہزاروں زخمی ہوئے۔ توتحریک انصاف سے سوال یہ ہے کہ کبھی سوچا کہ ان تمام واقعات اور ہلاکت کے وہ خود کتنے ذمہ دار  ہییں کو کیاانکی پارٹی کی اعلی قیادت کی اپنی بھی کوئی اولادیں ان ھلاک ہونے والیافرادیا زخمیوں میں شامل ہیں؟ تحریک انصاف ان تمام  کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں ہے؟ کیا میڈیا میں یہ سوال اٹھایا گیا؟ 
لہذا ضروری ہے کہ زیادہ احتیاط سے آئین کیمطابق متعلقہ قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ اورآفیشل سیکریٹ ایکٹ کیتحت ٹرائل کرکیشرپسندوں، منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں اور اْنکے سہولت کاروں کے خلاف مقدمات درج کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ضروری ہے ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والے شر پسند عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پھر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے تواتر سے اس روز عسکری تنصیبات و مقامات پر ہونے والے حملوں میں ملوث عناصر کونشان عبرت بنانے کے عزم کااعادہ کیا،اورکورکمانڈرکانفرنس میں آرمی چیف کے اس عزم کوحتمی فیصلہ کی شکل دی گئی۔ حکومت 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں اپنیسیاسی مخالفین کو عاجز کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ حالانکہ مضحکہ خیز طور پرحکومت خود اور حکومتی اتحاد میں شامل پارٹیزولیڈرزاپنی ہی حکومت کیخلاف سپریم کورٹ کے سامنے دھرنے دیتے دکھائی دے رہے ہیں اور پھر حکومت جسکی اپنی کریڈیبیلٹی پہلے ہی کمزور ہے، ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والے شر پسند عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کاخود کا اخلاقی جواز کیا رہا جاتا ہے۔  وقت ایک سا نہیں رہتا۔اگر یہ بات عمران خان سمجھنے سے قاصر رہے تو اسے انکی سیاسی معاملات وامور حکومت سے عدم واقفیت یا پھرہٹ دھرمی کہاجاسکتا ہے۔جس وجہ سے وہ 9 مئی کیافسوسناک سانحات کی مکمل ذمہ داری  اپنی پارٹی کی بجائے پی ڈی ایم  حکومت پر ڈالنا چاہتے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومتی پارٹیاں اپنی چوری چھپانے کیلئے فوج کے ذریعے تحریک انصاف کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ بعض انتہا پسند عناصر تو، تحریک انصاف پرپابندی لگانے اورعمران خان پر غداری کا مقدمہ چلانے کی تجاویز بھی دے چکے ہیں۔انہیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ ایسے اقدامات ہمیشہ مقبولیت ختم کرنے کی بجائے مقبولیت میں اضافہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہیں۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن