گلزار ملک
اقبال تیرے دیس میں کیسا وقت آگیا ہے کہ سیاستدانوں نے ہر لحاظ سے اس ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے مہنگائی نے غریبوں کا جینا عذاب بنا دیا ہے اور یہ سیاست دان اپنے اقتدار کی ہوس میں ایک دوسرے کو چور ڈاکو لٹیرا پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہہ کر پکارتے ہیں اب ذرا غور کرے اس وقت سیاستدان ،سیاسی جماعتیں اور ملک کا سیاسی مستقبل اس وقت سبھی چیزیں دائو پر لگی ہوئی ہیں ،عدالتوں کے اندر ہر طرف سیاسی مقدمات کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے عدالتیں جانبداری کے الزامات کی زد میں ہیں۔اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی اس پر سراپا احتجاج ہے اسی صورت حال میں تحریک انصاف پر ریاستی اداروں کے خلاف مہم جوئی کے الزامات بڑھتے جارہے ہیں۔ساتھ ہی حکومت کی جانب سے اقدامات میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے پاپولر رہنما عمران خان پر ہر طرف سے شدید دبائو ہے۔ وفاق اور ریاستی اداروں کے بڑھتے دبائو کو عمران خان تو کسی نہ کسی طریقے سے برداشت کررہے ہیں مگر ان کے رہنمائوں کے ہاتھ پائوں پھول چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی باقی لیڈرشپ آہستہ آہستہ عمران خان سے دامن چھڑا رہی ہے۔ پولیس اور باقی تفتیش کار ایجنسیوں کے خوف کا یہ عالم ہے کہ اسلام آباد میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے دوڑ لگادی۔ اس واقعہ سے خوف کا اندازہ ہورہا ہے کہ وفاق اور باقی حکومتیں پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو ڈرانے میں کس قدر کامیاب ہورہی ہیں۔ اسی وجہ سے اہم کھلاڑی اپنے کپتان کا ساتھ چھوڑ تے جارہے ہیں۔ میرے اس ملک کا سیاسی میدان اس قدر خراب ہوچکا ہے کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ اس ملک کا اور اس میں بسنے والے غریب عوام کا جن کے ووٹوں سے برسراقتدار آتا ہے ان کا سوچنے کی بجائے جو پہلے حکومت کر کے گئے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے جنہوں نے لوٹا تھا ان کا حساب کرنے بیٹھ جاتا ہے اس طرح سالوں سال بیت جاتے ہیں اور حکومت ختم ہو جاتی ہے یا پھر اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں اور پھر ایسے ہی حالات میں فوجی جوان ملک کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں اس طرح جمہوریت کا خاتمہ ہو جاتا ہے. اب آپ دیکھیں 9مئی کے افسوسناک واقعات نے نہ صرف اس دن کو ملکی تاریخ کا ’’یوم سیاہ‘‘ بنا دیا بلکہ ان کے نتیجے میں ایک نئی تبدیلی کی ہوا چلتی محسوس ہورہی ہے۔ مظاہروں ، ریلیوں ، بینرز اور نعروں کا انداز بدلا بدلا نظر آتا ہے۔ اس امر میں کلام نہیں کہ پاکستانی عوام اپنی مسلح افواج سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور ان کے خلاف کسی جانب سے کوئی منفی اشارہ بھی برداشت کرنیکے روادار نہیں اور رہی بات تکبر کرنے والے سیاست دانوں کی پھر جب کوئی دوسرا اقتدار میں آتا ہے تو وہ بھی اس پہلے والی روش کو دہراتا ہے لیکن ایسا کرنے سے ان کا تو کچھ نہیں جاتا یہ تو سب کچھ لٹا کے کے ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں مگر ملک اور عوام کا بہت کچھ برباد ہوجاتا ہے ماضی کی طرف نظریں دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مل کر عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے ایسے لوگوں کا حشر دنیا اور آخرت میں اچھا نہیں ہوتا جنہوں نے اقتدار کے دوران صرف تکبر اور غرور کی چادر کو آڑھے رکھا. 9مئی کا زخم ابھی تازہ ہے۔ ا?رمی چیف جنرل عاصم منیر نے سیالکوٹ گیریڑن کے دورہ میں کہا کہ شہدا ماتھے کا جھومر ،ملک اور عوام کے لئے باعث فخر ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ 9مئی کے ذمہ دار کٹہرے میں لائے جائینگے، کسی کو شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دی جائے گی بہرحال کہتے ہیں تکبر چاہے دولت کا ہو طاقت کا ہو رتبے کا ہو حیثیت کا ہو حسن کا ہو علم کا ہو بزنس کا ہو حسب و نسب کا ہو حتٰی کے تقویٰ کا ہی کیوں نہ ہو انسان کو ذلیل و رسوا کرکے ہی چھوڑتا ہے آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ انسان کو عاجزی لے ڈوبی انسان کو ہمیشہ اس کا تکبر ہی لے ڈوبتا ہے اور یہاں پر یہ بھی یاد رکھو کہ دولت اور عہدے انسان کو عارضی طور پر بڑا کرتے ہیں لیکن انسانیت اور اچھا اخلاق انسان کو ہمیشہ بلند درجے پر رکھتا ہے