کالم : حسبِ موقع ازقلم : رقیہ غزل
ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب کی صاحبزادی زیب النسائ عالمہ ، فاضلہ اور فارسی کی شاعرہ تھی۔یہ خصوصیات انھیں اپنے والد سے ورثے میں ملی تھیں۔جہاں شہزادی زیب النسائ کی دریا درلی ، درد مندی ،شاعری اور دانشمندی مشہور تھی وہیں شہزادی کی خوبصورتی کے بھی چرچے تھے۔بعض کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے اندر تھوڑی سی خود پرستی بھی آگئی کہ اسے کوئی بھاتا ہی نہیں تھا اور اس نے پوری زندگی شادی بھی نہیں کی تھی درحقیقت شہزادی نیک دل خاتون تھی اور قصہ کچھ یوں ہے کہ شہنشاہ اورنگزیب کو چین کے بادشاہ نے نایاب آئینہ تحفے میں دیا۔جو کہ بادشاہ نے اپنی بیٹی کو دے دیا۔شہزادی جب بھی آئینہ دیکھتی تو اسے اپنے حسن و دلکشی پر ناز ہوتا وہ اسے بہت سنبھال کر رکھتی تھی لیکن ایک مرتبہ شہزادی نے اپنی کنیز کو آئینہ لانے کا حکم دیا۔کنیز آئینہ لا رہی تھی ،اسے ٹھوکر لگی اور آئینہ گر کر ٹوٹ گیا۔کنیز سہم گئی اور پریشانی کے عالم میں شہزادی کے سامنے آگئی۔۔شہزادی نے اتفسار کیا :’’آئینہ کہاں ہے ‘‘؟چونکہ وہ بھی شاعری سے شغف رکھتی تھی اور شہزادی کی نرم طبیعت سے آگاہ تھی تو،اس نے اس موقع پر ایک مصرع کہا :’’از قضائ آئینہ ئ چینی شکست ‘‘یعنی تدبیر سے آئئنہ ٹوٹ گیا ہے۔۔اس موقع پر شہزادی کو چاہیے تھا کہ وہ سزا دیتی مگر اس نے نہایت اطمینان سے کنیز کی زبان و بیان سے متاثر ہو کر اسی مصرع پر اسی وزن میں ایک مصرع کہہ دیا جو کہ شہرہ آفاق شعر بن گیا۔شہزادی نے کہا :’’خوب شْد،سامان خود بینی شکست ‘‘یعنی اچھا ہوا کہ وہ سامان جو خود پرستی (غرور و تکبر )میں مبتلا کرتا تھا وہ ٹوٹ گیا ‘‘۔۔ یہ خود پرستی بڑی بری چیز ہے کہ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی اور ہوش تب آتا ہے جب پیروں تلے زمین بھی نہیں رہتی لیکن عقلمند لوگ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔جبکہ ہٹ دھرم ڈٹے رہتے ہیں پھر وہی ہوتا ہے جو آج پی ٹی آئی جیسی جماعتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ درحقیقت خان صاحب کا آئینہ بھی ٹوٹ گیا ہے جس نے اس زعم میں مبتلا کر رکھا تھا کہ میں مقبولیت کی اس انتہا پر ہوں کہ جو چاہوں کر سکتا ہوں اورعوامی طاقت سے سب کو روندھتا ہوا تخت پر جا بیٹھونگا۔یقینا حیثیت کا غرور کبھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اڑان زمین سے شروع ہو کر زمین پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔میں نے لکھا تھا کہ لگتا ہے کہ خان صاحب کے ساتھ کوئی مخلص دوست نہیں ہے جو انھیں سمجھاتا کہ حوصلوں کو اتنا بلند نہیں کرنا چاہیے کہ انسان اپنی ہی آگ میں جل کر خاک ہو جائے۔یہی ہورہا ہے کہ جو آگ ملک کو جلانے کے لئے سلگائی گئی اسی میں آگ لگانے والے جل رہے ہیں۔
آج پی ٹی آئی جس صورتحال کا سامنا کر رہی ہے یقینا افسوسناک ہے لیکن اس کی ذمہ دار بھی قیادت ہے۔جس کا طرز سیاست پہلے دن سے ہی سوالیہ نشان تھا کہ وہ اندرون و بیرون ملک تقریباً ہر پلیٹ فارم پر ماضی کے حکمرانوں کو نازیبا کلمات سے نوازتے تھے۔یہ پریکٹیس اتنا بڑھی کہ پھر پوری پارلیمنٹ کو ہی گنہگار کہہ دیا لیکن یہاں بھی ان کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی جبکہ لکھاریوں نے لکھ لکھ کر صفحے سیاہ کر دیے کہ ایک منظم ،مربووطریقے کے ساتھ پاکستان میں ہیجان ،فساد اور انتشار کی کوشش کی جا رہی ہے اور اداروں کے خلاف عوام الناس میں نفرت کی ایسی آگ سلگائی جا رہی ہے جس کا انجام بھیانک ہو سکتا ہے۔کیونکہ جتنے بھی اسلامی ممالک زیر عتاب ہیں وہاں ابتدا ایسے ہی کی گئی تھی جس کی پریکٹیس یہاں جاری تھی۔ لیکن ہمارے ہاں یہی مسئلہ ہے کہ اشرافیہ اور افسر شاہی ہر قانون سے بالاتر ہیں جبکہ عام آدمی روٹی بھی چرا لے تو دھر لیا جاتا ہے۔آپ کو ماننا ہوگا کہ ملکی کرتا دھرتا سے غلطی ہوئی ہے کہ بعض میڈیائی باوے اور بعض سیاستدان سر عام اداروں کو للکارتے رہتے ہیں لیکن ایکشن نہیں لیا جاتاکیونکہ وہ اثر رسوخ رکھتے ہیں۔۔اسی چیز نے حوصلوں کو بڑھایا ہے اور نوبت یہاں تک آگئی کہ جن شہیدجانبازوں کے جسد خاکی کو ملک دشمنوں نے پامال نہ کیا ان کے مجسموں کو بیوقوف مرید وں نے توڑ کر عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔۔ستم تو یہ ہوا کہ ’’حقیقی آزادی کی جنگ‘‘ کے نام پر جن سے تخریب کاری کروائی گئی انھیں اپنا ماننے سے انکار کر دیا گیا بلکہ پی ٹی آئی چئیرمین نے کہا ہے کہ پارٹی کا شرپسندوں سے کوئی تعلق نہیں انھیں قانون کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں۔یہ وہی معصوم نوجوان ہیں جنھیں شب و روز جھوٹے بیانیوں کا چورن بیچا جاتا تھا مگر یہ نہیں سمجھتے تھے کہ جو اپنے ہر بیانیے سے مکر جائے اس کے نزدیک غریب کی حیثیت کیا ہے جبکہ یہ روز روشن کی طرح عیاں تھا کہ جناب کی ساری جدوجہد کرسی کے گرد گھومتی تھی جس میں انھوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نہیں تو کون بے ، ہے کون ادھر !
یقینا برائی کو بڑھنے سے پہلے روکنا چاہیے چونکہ ہمارے ہاں عام ہے کہ سیاسی جماعتیں حکومت جانے پر اداروںکے خلاف زہر اگلتی ہیں اسلئے زیادہ اہمیت نہ دی گئی حالانکہ واضح تھا کہ خان صاحب سیاسی لبادھا اوڑھ کر دین کے پردے میں سیاسی کھیل کھیل رہے تھے،ایسا ڈبہ پیر جو مرشد کہلواتا ہے اور اقتدار کے حصول کے لیے گمراہ ذہنوں کو استعمال کر رہا ہے۔ ذہن سازی کرنے والے کو موٹیویشنل سپیکر کہا جاتا ہے جو کہ تن مردہ کو بھی ہمت کا سبق پڑھا کر کامیابیوں کا راستہ سجھا دیتا ہے۔ خان صاحب کا ہر خطاب اٹھا کر دیکھ لیں وہ تقریر نہیں ذہن سازی کرتے دکھائی دیں گے جیسا کہ اس وقت بھی خود پارٹی کارکنان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہ میں پارٹی چھوڑنے والوں کے لیے دروازے بند کر رہا ہوں ،اب میں اکیلا لڑونگا۔ سوال تو یہ ہے کہ آپ نے کس سے اور کیوں لڑنا ہے ؟ سیاست کو میدان جنگ بنا دیا ہے اور اقتدار کی ہوس میں معصوموں کو دا?پر لگا دیا ہے۔پارٹی رہنما دیگر پارٹیوں کے ٹھکرائے ہوئے بازیگر ہیں سوا نھوں نے اڑان بھر لی ہے اور پیپلز پارٹی کی منڈیروں پر منڈلاتے نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کی وفاداریاں ملک و قوم کے ساتھ نہیں مفادات سے وابستہ ہیں جو کہ سیاست کی حقیقی شکل ہے کہ سیاسی جماعتیں تو بدلی جا سکتی ہیں مگر فوج نہیں اور ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے کہ ان کی ولولہ انگیز قیادت ،بہادری اوردلوں میں ایمان کا نور ہونے کیوجہ سے پاکستان نا قابل تسخیر ہے۔دشمن کو یہی تو برداشت نہیں کہ پاکستان کی فوج دنیا کی بہادر فوج ہے کہ جب دشمن نے میلی نظر سے دیکھا تو منہ کی کھائی اور اب بھی دشمنان وطن کو جواب مل گیا ہے جو اسے سری لنکا بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے کہ آج پشیمان ہیں اور مذمتی بیانیات داغ رہے ہیں۔۔ان سیاسی کاریگروں کے مذمتی بیان دیکھ کر دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے ’’ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔۔ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا ‘‘۔
بہرحال وطن عزیز کو اس وقت خوفناک معاشی حالات،بدترین مہنگائی ، بے سکونی اور انتشار کی مستقل صورتحا ل کا سامنا ہے۔جس کی بنیادی وجہ سیاسی بحران ہی نظر آتا ہے۔اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے معامالات کا حل نکالا جائے کیونکہ ہم جس سطح پر پہنچ چکے ہیں اس سے آگے قومی سلامتی کے خطرات واضح نظر آرہے ہیں۔اورحکومت کو چاہیے کہ اپنے مشیروں پر نظر ثانی کرے جو انھیں کارکردگی بہتر کرنے کی بجائے انتقامی سیاست کی ترکیبیں بتاتے رہتے ہیں۔۔
جس دھول کی مٹی سے ہوا قافلہ اندھا
خود قافلہ سردار کی ٹھوکر سے اڑی ہے