تاریخ کاجبر

جنرل نیازی سے پہلے جنرل ٹکا خاں مشرقی پاکستان کی فوجی کمانڈکے ذمہ دار تھے، یہ جوہم فوجی ایکشن کے حوالے سے مشرقی پاکستان کی داستانیں سنتے آرہے ہیں، ان کا زیادہ تر تعلق جنرل ٹکاخاں کی کمانڈرسے رہا۔ یہ غلط یاصحیح جملہ بھی ان کے حوالے سے ہی مشہور ہوا کہ "مجھے تاریخ نہیں جغرافیہ عزیز ہے"۔ یہ بات کہ بنگالی عوام فوجی ایکشن کے دوران اپنی شناخت چھپانے اورخودکومغربی پاکستانی ظاہر کرنے کے لئے اپنی چھتوں پر شلوارقیمض دھوکرلٹکا دیتے تھے، یہ واقعہ بھی جنرل ٹکاخاں کی کمانڈ میں ہوا۔ یہ بات طے ہے کہ مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کی ابتداء میں جو کچھ بھی ہوا اس کے ذمے دار جنرل ٹکاخاں تھے ۔جو بعد میں کمانڈر تبدیل کرکے جنرل نیازی کو ’’ایسٹرن کمانڈ‘‘ سونپ دی گئی۔ پھر دسمبر71ء میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا (انا اللہ واناالیہ راجعون) مغربی پاکستان اب "پاکستان" بن گیا جس  میں ذوالفقار علی بھٹو پہلے صدر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریڑ اور پھر وزیر اعظم بنے۔ KPK تب صوبہ سرحد کہلاتا تھا جہاں نیشنل عوامی پارٹی اورجمعیتہ علماء اسلام کی حکومت بنی۔ مفتی محمود صوبے کے وزیر اعلی اور ارباب سکندر خاں خلیل گورنر مقرر ہوئے کیونکہ ان جماعتوں کو صوبے میں اکثریت حاصل تھی۔ یہاں پیپلز پارٹی صرف ایک نشست مل سکی ۔بلوچستان میں تو پیپلز پارٹی کو ایک نشست بھی نہ مل سکی اور یوں وہاں عطاء اللہ مینگل وزیر اعلی اور غوث بخش بزنجو گورنر بنے۔ صوبوں کی حکومتیں چند ماہ ہی چلی تھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو  نے دونوں صوبوں کی حکومتیں توڑکر ان کو گھر بھیج دیا۔ یہ مرکز کی طرف سے صوبائی حکومتوں پر بڑاحملہ تھا جسے قبولیت عامہ نصیب نہ ہوسکی۔ نیشنل عوامی پارٹی ،مولانا مفتی محمود، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجواور ان کے ساتھی بھٹو حکومت کے خلاف کھل کر میدان میں آچکے تھے اورملک کے قریہ قریہ میں دورے کرنا ان کا معمول بن گیا۔ جس بناء پر ان کے خلاف"حیدرآبادٹربیونلـ" قائم کرکے انہیں حیدرآباد جیل میں پابند طوق وسلاسل کردیا گیا۔ اس قصائی خانے میں حبیب جالب بھی ان کے ہمراہ قید رہے۔ پھر 5جولائی 77ء کو ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے جاہ وجلال سمیت جیل کی دیواروں کارزق بن گئے۔ ادھر بھٹو گرفتار ہوا، ادھر یہ سب مظلوم ومقہور راہنما رہاکردیئے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرکے ایک اطلاع کے مطابق ایک روز فیصلہ کیا کہ انڈونیشیا کے جنرل سہار تو کی طرح جس نے ایک ہی رات میں ایک لاکھ کی تعداد میں اپنے مخالفین کو "کیمونسٹ" قرار دے کر قتل کردیا تھا، پاکستان میں بھی پیپلز پارٹی کے کارکنوں کوجان سے ماردیا جائے ،انہی دنوں یہ پروپگنڈہ بھی کیاگیا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد ہو رہا ہے۔ کچھ اس قسم کی اطلاعات اورکچھ جمہوری سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے ملک بھر کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، نواب زاہ نصراللہ کی جمہوری پارٹی، ولی خاں کی نیشنل عوامی پارٹی، مزدو کسان پارٹی، معراج محمد خاں کی جماعت قومی محاذ آزادی اور سب سے بڑھ کراس وقت کی نمایاں ترین جماعت تحریک استقلال نے باہم مل کر لاہور میں عوامی حقوق کے تخفظ کے لئے جنرل ضیاء الحق کے خلاف "تحریک بحالی جمہوریتMRD" کے نام سے ایک سیاسی اتحاد کی بنیاد ڈالی۔ جنرل ٹکا خاں تب پیپلزپارٹی میں شامل ہوکر اس کے جنرل سیکرٹری بن چکے تھے۔ لاہور میں ہی ایک روز سید افضل حیدر مرحوم کے گھر MRD کے ایک اجلاس کی صدارت بنگالی پاکستانیوں کے قاتل جنرل ٹکاخاں نے کی جبکہ بنگالی عوام کے تخفظ کے بڑے علمبردار اور پیپلز پارٹی کے ستم رسیدہ غوث بخش بزنجو کو اس اجلاس میں بطور رکن شامل ہونا پڑا۔ اجلاس کے بعد کھانے کی میز پر ایک صحافی نے غوث بخش بزنجو سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے آپ بنگالیوں کے ساتھی رہے اور آج آپ بنگالیوں کے قاتل جنرل ٹکاخاں کی صدارت میں اجلاس میں بھی شامل ہوئے تو انہوں نے کہاکہ بھائی کیاکیا جائے یہ سب "تاریخ کا جبر" ہے۔ اس جبرکا مظاہرہ میں نے ایک روز خورشید محمود قصوری کی رہائش گاہ گلبرگ لاہور میں بھی دیکھا جب پیپلز پارٹی کے سب سے بڑے مخالف ایئر مارشل (ر) اصغر خاں اور پیپلزپارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو ایک ہی اجلاس میں شریک ہوئے جس کی صدارت اصغر خاں نے کی اوربے نظیر بھٹو نے اعلان کیا کہ لاہور گوالمنڈی کے علاقے میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اصغرخاں ہمارے اتحاد ’’پاکستان ڈیموکریٹک الائنس‘‘ (پی ڈی اے) کے امیدوار ہوںگے جو"اسلامی جمہوری اتحاد" (IJI) کے امیدوار نوازشریف کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا نتخاب لڑیں گے۔ یہ بھی "تاریخ کے" جبرکا  ایک مظاہرہ تھا۔ مگر معلوم نہیں کہ یہ جبراصغرخاں کے لئے تھا یا بینظیر بھٹو کے لئے۔ ویسے اطلاعا بیان کرتا چلوں کہ اگر پیپلز پارٹی ان انتخابات میں اصغرخاں کو ووٹ دے دیتی تو وہ جیت جاتے مگر اس کے اندرونی رابطے بذریعہ جہانگیر بدر، نواز شریف سے ہوچکے تھے۔ تاریخ میں ایسے بہت سے"جبر" ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس جبر کا تازہ تازہ نظارہ چوہدری پرویز الٰہی کی تحریک انصاف میں شمولیت اور اس کاصدر بننے کے بعد دیکھنے میں آیا۔افسوس ناک! گذشتہ دنوں ڈسٹرکٹ بارگوجرانوالہ کے رکن، محفلوں کی جان اور صاحب طرز نثرنگار ظفر اقبال مغل ایڈووکیٹ ہمیں روتا دھوتا چھوڑ کر دنیا چھوڑ گئے۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے۔
٭…٭…٭

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن