بحران کا سبب۔ جمہوری مزاج کا فقدان

گزشتہ ایک ہفتے میں وطن عزیز کو جن حالات سے گزرنا پڑا ان کو دیکھ کر جون ایلیا کے شعر میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ہم بھی عجیب لوگ ہیں اتنے عجیب ہیں کہ بس 
 خود کوتباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے ایوب خان سے آج تک اقتدار کی غلام گردشوں میں بہت سے منظر دیکھے۔ ایک وقت تھا کہ ایوب خان کے اقتدار سے تنگ آئے ہوئے لوگ اس دور کے ذوالفقار علی بھٹو، مولانا مودودی، نوابزادہ نصراللہ، شیخ مجیب الرحمن، مفتی محمود، مولانا بھاشانی، شاہ احمد نورانی، ولی خان اور ایسے ہی بہت سے تجربہ کار سیاستدانوں کی طرف سے جمہوریت کی بحالی اور قوم کی آزادی کے لیے اپنے انداز کی سیاست کیا کرتے تھے۔ تب سے اب تک بہت سی تحریکیں دیکھیں لیکن فضا میں اتنی گھٹن کا احساس اس سے پہلے نہیں ہوا جتنا اب ہو رہا ہے۔لوگوں کو ایوب خان پر غصہ بھی آیا یحییٰ خان پر بھی غصہ آ یا لیکن عجیب بات ہے کہ عوام اور مجموعی فوج کے ادارے کے مابین محبت اور احترام کا جذبہ ہمیشہ برقرار رہا ۔ جس طرح اب ایک طرف عمران خان اور دوسری طرف بیشتر سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے اسی طرح 70ء کی دہائی میں ایک طرف بھٹو اور دوسری طرف ساری سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ اب پی ڈی ایم کے نام سے اتحاد ہے تو اس وقت آئی جے آئی یعنی اسلامی جمہوری اتحاد بنا تھا۔
بعد میں اے آر ڈی سمیت اور بھی اتحاد بنے تحریکیں بھی چلیں لیکن عمومی طور پر فوج اور عوام کے مابین اعتماد کا رشتہ برقرار رہا ۔ اب ایسا کیوں ہوا ہے کہ آئی ایس پی آر کو ایک ہفتے میں تیسری بار میڈیا میں بیان جاری کرنا پڑا ہے اور دو دن پہلے والے بیان سے تشویش بھی ہوئی ہے کہ آخر کیوں ہماری پاک فوج کے ترجمان کو یہ کہنا پڑا ہے کہ کسی نے فوج سے استعفیٰ نہیں دیا اور یہ کہ فوج اپنے چیف کی کمان میں متحد ہے اور متحد رہے گی۔ اس کا ایک سبب شاید یہ ہے کہ یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس دورمیں افواہ سازی کو ایک تکنیک کا درجہ دیدیا گیا ہے۔ دشمن اس تکنیک کا خوب استعمال کر رہا ہے لیکن ہمیں خود بھی توہر قدم پھونک پھونک کر چلنا ہے ۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے ہمارے سیاستدانو ں کو جو کردار ادا کرنا تھا ان کی اکثریت وقتی مصلحتوں اور عارضی اقتدار کی خاطر وہ ادا نہیں کر پارہی۔ اہم بات یہ ہے کہ جمہوری عمل کو پورے خلوص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ آگے نہیں بڑھنے دیا گیا اور اسی آنکھ مچولی میں وہ صورتحال پیدا ہوئی جس کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں۔
وطن عزیز میں اہم فوجی علامتوں کو عام سیاسی مقامات کی طرح نشانہ بنائے جانے پر دل بہت دکھی ہے۔ کچھ بھی ہو جاتا ملک کی محافظ علامتوں کو سیاست کی نذر کرنا کوئی محب وطن پسند نہیں کر سکتا۔ اقتدار کی ہوس اور جمہوری عمل کی بجائے سب کچھ آمرانہ انداز میں ذاتی پسند ناپسند کے تابع کرنے کی سوچ نے یہ دن دکھائے ہیں ۔ ایک طرف وہ دنیا ہے کہ ایک علامتی باشاہ کی تاجپوشی کے لیے بھی وہاں کے عوام دیدہ ودل فرش راہ کیے ہوئے تھے صرف اس لیے کہ اس شاہی خاندان نے بہت پہلے عوام کی رائے کو اقتدار کی بنیاد قرار دے کر برسوں پہلے وہاں جمہوری عمل کو اور انصاف کو عام کرنے میں کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ ایک ہم ہیں کہ جمہوری کلچر کو اپنانے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں ۔
ایک وقت تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ایک دوسرے کو دبانے کی خاطر ایسے پتے کھیلے کہ کوئی جماعت بھی اپنا جمہوری دورانیہ پورا نہ کرسکی اور میوزیکل چیئرز کا سلسلہ اس وقت رکا جب دونوں کو سمجھ آ گئی کہ اس طرح دونوں کا خسارا ہے۔ پھر ’میثاقِ جمہوریت‘ ہوا اور اس کے نتیجے میں دونوں کو ایک ایک جمہوری دورانیہ مل گیا۔ جب دونوں بڑی پارٹیوں کے بیچ میں ایک تیسری قوت تحریک انصاف کی صورت میں سامنے آ گئی تو پھر پہلے والی بڑی پارٹیوں کا ’میثاقِ جمہوریت‘ والا فارمولا کہیں پس منظر میں چلا گیا اور سیاست میں کیفیت وہی 90ء کی دہائی والی ہو گئی ۔ اس حد تک توقابل قبول تھا لیکن اس بدلتی ہوئی صورتحال میں ایک نقصان اور یہ ہوا کہ کسی نہ کسی حوالے سے ہماری عسکری قیادت زیرر بحث آ گئی۔ شاید اس لیے کہ ماضی میں کسی عسکری قیادت نے ریٹائرڈ جنرل باجوہ کی طرح اتنا کھل کر مختلف معاملات میں صحافیوں سے تال میل نہیں رکھی تھی اور نہ ہی میڈیا کو اپنے معاملات میں اتنا انوالوکیا تھا ۔ گزشتہ روز آئی ایس پی آر نے واضح کہا ہے کہ فوج کے سربراہ اور ان کے ماتحت تمام ادارے جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ۔ موجودہ حکومت کے ترجمان بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ جمہوری عمل پر یقین رکھتے ہیں تو پھر
 یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے 
تحریک ا نصاف کے سربراہ نے گزشتہ روزمتعددمقدمات میں ضمانتوں کے بعد دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ کی ہے کہ فوج کے سربراہ کو ان کے حوالے سے غلط معلومات دے کرتحریک انصاف کی قیادت کے خلاف کیا جا رہا ہے اور مستقبل میں ممکنہ اقتدار ملنے کے بعد وہ آرمی چیف کے خلاف کچھ کرنے کی سوچ نہیں رکھتے بلکہ مل کر کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ پی ڈی ایم اے کے سربراہ نے عمران خان کو عدالتوں سے متعدد کیسوں میں ایک ہی دن ضمانتوںکومحل نظر سمجھتے ہوئے سوموار کو سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ فوری ضمانتوں پر مضطرب ہونے والے یہ نہیں دیکھتے کہ متعدد مقدمات بھی تو ایک دن میں بنائے جا رہے ہیں اور یہ کہ یہ دھرنا اس لیے ہے کہ سپریم کورٹ پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے اپنے احکامات کی تعمیل نہ ہونے پر کوئی فیصلہ سنانے والی ہے اوریہ فیصلہ رکوانے کے لیے سب کچھ کیا جا رہا ہے جو جمہوری سوچ نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ابھی تک تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہی ضد میری مجبوری، وہی اقتدار کی ہوس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی چالیں۔ اگرچہ فوجی قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ ملک میں ماضی کی طرح مارشل لاء کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور وہ جمہوریت پسند ہیں لیکن ہمارے سیاستدان شاید جمہوری مزاج کو اپنے شایانِ شان نہیں سمجھتے ۔ کاش گزشتہ برس جب تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی عدم اعتماد کی تحریک آئی تھی تو اسے جمہوری روایات کے مطابق آگے بڑھایا جاتا اور تحریک نصاف قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہوتی اورکاش جب صوبائی اسمبلیوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے لیے مختلف مرحلے آئے توسازشوں کی بجائے جمہوری مزاج سے کام لیا جاتا اورکاش اب جبکہ انتخابی حوالے سے صوبائی اسمبلیو ں کے انتخابات واجب تھے تو اس عمل کوکھلے دل سے قبو ل کرلیا جاتا تو سارے بحران پیدا نہ ہوتے ۔ نہ سیاستدان، نہ عدلیہ اور نہ ہی عسکری ادارے اس بحران میں مبتلا ہوتے جس نے ا س وقت پوری قوم سارے ملک اور اس کی معیشت اور مستقبل کو دائو پر لگا دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن