اسلام آباد(اعظم گِل/خصوصی رپورٹر) وفاقی حکومت نے ججز سے متعلقہ آڈیولیکس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق تحقیقات کیلئے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے علاوہ چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اخترافغان شامل ہوں گے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ حال ہی میں قومی الیکٹرانک،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر عدلیہ، سابق چیف جسٹسز,ججز کی گفتگو سے متعلق گردش کرنے والی متنازع ویڈیوز نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹسز/ججز کی غیر جانبداری، آزادانہ اور دیانت داری سے فیصلے کرنے کی صلاحیت کے حوالےسے سنگین خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے پاس ایکٹ کے علاوہ سیکشن 10میں دیے گئے تمام اختیارات حاصل ہونگے، وفاق اور صوبے کمیشن کے کاموں کی انجام دہی میں مدد کے پابند ہوں گے، وفاقی حکومت کمیشن کو انکوائری کیلئے دفتر اور سیکریٹری فراہم کرے گی۔ اٹارنی جنرل کمیشن کی مدد اور تمام دستاویز وضروری مواد فراہم کریں گے۔نوٹیفکیشن کے متن کے مطابق کمیشن اپنی تشکیل کے نوٹیفکیشن کے فوری بعد انکوائری شروع کرے گا، کمیشن انکوائری مکمل کرکے 30 روزمیں رپورٹ وفاقی حکومت کو دے گا۔ اگرکمیشن کومزید وقت درکار ہو تو وفاقی حکومت اسے دے گی۔نوٹیفکیشن میں وفاقی حکومت کی جانب سے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ متن کے مطابق ججز سے متعلق گفتگو ان کی غیرجانبداری پرسنگین خدشات پیدا کرتی ہے، اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس یاججزکی آڈیوزنے عوامی اعتمادکوٹھیس پہنچایا ہے۔ عوام نے اعلیٰ عدالتوں کے ججزکی غیرجانبداری پر خدشات کا اظہار کیا۔مزید کہا گیا ہے کہ عدلیہ آئین کے تحت اہم ستونوں میں سے ایک ہے، عدلیہ کی آزادی سلب ہوتی ہے تو معاشرے کا اعتماد ٹوٹ جاتاہے، کمیشن عدلیہ کی آزادی،منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی کاتعین کرے گا۔آڈیوزجعلی یامن گھڑت ہیں تو بنانے والوں سے متعلق بھی انکوائری کی جائے۔ مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے جوڈیشل کمیشن سے متعلق وفاقی حکومت نے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیاہے۔کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن کابینہ ڈویڑن سے جاری کیا گیا جو 19 مئی کو گزٹ آف پاکستان میں شائع ہوا۔نوٹیفکیشن کے مطابق پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کی دفعہ 3 کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے حکومت پاکستان ان مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن تشکیل دے رہی ہے۔کابینہ سیکریٹری کے جاری نوٹیفکیشن میں ٹی او آرز بھی شامل کیے گئے ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق جوڈیشل کمیشن سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی سپریم کورٹ کے موجودہ جج اور ایک وکیل کے ساتھ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا، سابق وزیراعلیٰ اور وکیل کے درمیان مخصوص بینچز کے لیے مقرر کرنے کی تحقیقات بھی کرے گا۔جوڈیشل کمیشن موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس اور وکیل کی اہلیہ کی آڈیو لیک، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے داماد سمیت آڈیو لیکس سے جڑے افراد سے بھی تحقیقات کرے گا۔جوڈیشل کمیشن صحافی اور وکیل کے درمیان مخصوص بنچ کے سامنے مقدمہ کی سماعت سے متعلق اورسابق وزیراعظم کی اپنے کولیگز کے ساتھ سپریم کورٹ میں تعلقات سے متعلق لیک ہونے والی آڈیو کی بھی تحقیقات کریگا۔جوڈیشل کمیشن ذمے داروں کا قانون کے مطابق احتساب کرنے کا بھی فیصلہ کرے گا، یہ بھی دیکھے گا کہ کونسی ایجنسی ذمے داروں کا احتساب کرسکتی ہے۔ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے رائے نہیں لی گی جسکی تصدیق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی کرتے ہوئےکہا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا چیف جسٹس پاکستان کی رائے نہیں لی گئی اور نہ ہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو کمیشن میں شامل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ادارے کی ساکھ کو آڈیو لیکس نے متاثر کیا کمیشن 2017 کے ایکٹ کے تحت بنایا گیا ہے، کمیشن قائم کرنا حکومت کا اختیار ہے۔وفاقی وزیر رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ حکومت پر سول سوسائٹی اور دیگر کا پریشر تھا کہ آڈیو لیکس کی انکوائری ہو، آڈیو لیک سے سامنے آئی بات ثابت ہوئی تو معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جائے گا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کیلئے حکومت کے پاس کوئی مواد تو ہونا چاہئے۔ کچھ آڈیوز میں فیصلوں سے متعلق بتایا گیا اور پھر فیصلے اسی طرح ہوئے، جرم پرائیویسی کی ڈھال نہیں لے سکتا۔ آڈیو لیک میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ جرم اور ریاست کے خلاف ہیں۔
جوڈیشل کمشن