قلم زاریاں …محمد الطاف طاہر دومیلوی
altaftahir333@gmail.com
قارئین گرمی کی شدت وحدت اور تمازت آفتاب نے انسانی زندگی کو نڈھال کر دیا محکمہ تعلیم نے اوقات کار میں تبدیلی کر دی ،پھول کلیاں کملانے لگیں چرند پرند گھنے درختوں اور سایہ دار جگہوں کی طرف ہجرت کرنے لگے لیکن ابن آدم بڑا سخت جاں ہے اس کڑی دھوپ میں بھی ہیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے آجر کی اجارہ داری کی بھینٹ چڑھا دکھائی دیتا ہے گرمی کے ساتھ ساتھ سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھتا جا رہا ہے حکومت مخالف جماعتیں زمام اقتدار پر براجمان اشرافیہ کے خلاف مورچہ زن ہیں ہر سو گرج چمک اور بادباراں،توبہ توبہ یہ منظر جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں ،سیاسی رواداری کا نہ ہونا سیاسی ماحول کو گرمانے کا باعث بن رہا ہے ہمارے سیاست دانوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا ورنہ سیاسی منظر نامہ یوں ابر آلود دکھائی نہ دیتا ارے ہم بھی گرمی کی لپیٹ میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے قارئین چھوڑیں اس افراتفری کو اس غیر سنجیدہ ماحول کو آج آپ کی طبیعت میں ظرافت لاتے ہیں آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور آپ کو ظریفانہ کلام سے محظوظ کرتے ہیں اور خوشی کا یہ نسخہ آپ کے نام کرتے ہیں پیارے قارئین یہ حقیقت اپنی جگہ پر بے کم وکاست ہے کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے اور طنزیہ و مزاحیہ ادب زندگی کی حماقتوں کو پرچہ چاک کرتا ہے چینی مصنف نن یوٹانگ نے مزاحیہ ادب لکھنے والوں کی عظمت کی عکاسی یوں کی ہے اگر جنگ چھڑنے والی ہو تو آمادہ جنگ ملکوں کے طنز و مزاح نگاروں اور مزاح نگاروں کو فیصلہ کرنے کے لئے اکھٹا کر دینا چاہیے اور جنگ کہیں نہ شروع ہو سکے گی اس طرح مزاح نگار انسان دوست بن کر ہمارے سامنے آتا ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ طنز نگار عام طور پر معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابیوں جو نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں ان کی طرف ہماری توجہ دلاتا ہے نیاز سواتی نے کیا خوب عکاسی کی ہے
الیکشن ہار کر بھی ہار سے انکار کرتا ہے
سیاست کے لبادے میں بھی کاروبار کرتا ہے
کھبی حزب مخالف اس کو راس آتی نہیں دیکھی
جو مثبت قدر ہے وہ اس کے پاس آتی نہیں دیکھی
آج کل کوئی کام رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہوتا
تو پھر یہ طنز و مزاح کی جھلک ملاحظہ فرمائیں
جس شخص کو اوپر سے کمائی نہیں ہوتی
سوسائٹی اس کی کبھی ہائی نہیں ہوتی
کرتی ہے اسی روز وہ شاپنگ کا تقاضا
جس روز میری جیب میں ہائی نہیں ہوتی
ممتاز شاعرڈا اکٹر انعام الحق جاوید نے طنز و مزاح میں زندگی کو ادب کے موتیوں میں پرویا ہے
علم کا رعب ٹھیک ہے لیکن
ڈگریوں کا بھی کچھ اثر ڈالو
کر لیا ہے جو تم نے ایم اے تو
ساتھ ہی میٹرک بھی کر ڈالو
۔۔۔۔۔
منے کا بستہ
منے پر ہے اتنا بوجھ کتابوں کا
بے چارے کو چلنے میں دشواری ہے
اس کا بستہ دیکھ کے ایسے لگتا ہے
پی ایچ ڈی سے آگے کی ڈگری ہے
سرفراز شاہد نے کیا پرچہ چاک کیا ہے
داد تو بنتی ہے مزاح نگار کی شاعری کی آپ کفایت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہیں
ہے میزبانی کا یہ تقاضا
کہ آئے مہمان تو مسکرا دو
مگر طبیعت یہ چاہتی ہے
گلے ملو اور گلہ دبا دو
بہ زبانی سرفراز شاہد
ہوئی جو دال گراں اور سبزیاں مہنگی
کچن میں جا کے بھلا کیا وہ دلنواز کرے۔معاملات محبت کا اب یہ عالم ہے
میں پیار پیار کروں او وہ پیاز پیاز کرے
عجب سیکٹر زدہ لوگ اس بستی میں رہتے ہیں
کہ جیسے گول کیپر اپنی اپنی ڈی میں رہتے ہیں
چلے گا سب کس طرح اب عشق لیلی اور مجنوں میں
وہ سیکٹر سی میں رہتی ہے یہ سیکٹر جی میں رہتے ہیں
نظیر اکبر آبادی
کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے پر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب پہ دکھاتی ہیں روٹیاں
ادب کی دنیا میں ہم جیسا بے ادب کیا گل کھلائے ارے بھائی مہنگائی ہے بے روز گاری ہے سیاسی کی رسی کشی ہے ہر طرف ڈھول بجانے کی صدا کہیں ہنسنے ہنسانے کی محفل تو کہیں افسردہ مناظر اس لئے تو ہم نے آپ کو سکون راحت اور خوش کرنے کی کوشش کی ہے لگتا ہے آپ اکتا گئے ہیں چلیں مزید آپ کو بوریت کا شکار نہیں کرتے۔سچ ہے ادب زندگی کا ترجمان ہے ہر لمحہ ہر گھڑی ہر ساعت معاشرتی قباحتوں اور حماقتوں کا پرچہ چاک کر رہا ہے ظریفانہ کلام اور طنز و مزاح ہماری الجھنوں کا عکاس ہے اور ہمیں پریشان کن حالات میں خوشی سے سر شار کرتا ہے مزاح نگار وں کی عظمت کو سلام جو مزاحیہ انداز میں معاشرے کے مسائل اور حماقتوں کی منظر کشی کر رہے ہیں