تجا ہلِ عا رفانہ           فیصل کنڈی بمقابلہ گنڈاپور!

ڈاکٹرعارفہ صبح خان              
جونہی فیصل کریم کنڈی کے پی کے گورنر بنے تو وزیر اعلیٰ کے پی کے امین گنڈاپور نے کافی سے زیادہ غلط زبان استعمال کی۔ یہ غیر اخلاقی، غیر سنجیدہ، غیر مہذبانہ زبان تھی جسے میں احا طہءتحریر میں لانا بھی توہین آمیز سمجھتی ہوں۔ ایک معمولی سا کونسلر یا کسی سرکاری دفتر کا کلرک بھی قا نونی اور اخلاقی طور پر بُری زبان استعمال نہیں کر سکتا۔ حق سچ تو یہی ہے کہ ہر آدمی اپنی زبان کے پیچھے چُھپا ہو تا ہے۔ زبان کے استعمال سے کسی بھی انسان کے خاندان نسل اوقات تربیت اور باطن کا پتہ چلتا ہے۔ علی امین گنڈا پور نے پہلے دن سے اپنی بد زبانی کا مظا ہرہ کیا ہے۔ خیبر پختونخواہ ایک بڑا صوبہ ہے جس میں بہت و ضع دار، مہذب اور روایات کے پابند لوگ رہتے ہیں۔ یہ علاقہ تہذیب و تمدن اور اخلاقیات کا گہوارہ رہا ہے مگر پرویز خٹک، محمود خان کے بعد علی امین گنڈا پور نے روایات اور اخلاقیات کی دھجیاں اُڑایں ہیں۔جہاں تک فیصل کریم کنڈی کا تعلق ہے ، وہ ایک تعلیمیافتہ اور مہذب خاندانی انسان ہیں ۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے لتا ڑنے اور دھمکی آمیز بیانات پر پہلے نرمی سے جواب دیا لیکن جب وزیر اعلیٰ ہاﺅس سے گولہ بارود جاری رہا تو پھر گورنر کے پی کے نے سخت لہجے میں جواب دیا۔ مجھے جس بات نے متا ثر کیا ، وہ غصے کی حالت میں فیصل کریم کنڈی کا مہذبانہ انداز میں مگر سخت لہجے میں جواب تھا۔ سخت لہجہ ہونا بُری بات نہیں مگر بدزبانی اور غلیظ الفا ظ کا استعمال بُری بات ہے۔ علی امین گنڈاپور کی ابھی تک کی صوبے میں گورنینس زیرہ چلی آ رہی ہے۔ گنڈا پور نے ابھی تک عوام کی فلاح و بہبود کا ایک بھی منصوبہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی صوبے میں کو ئی بڑا کام کیا۔ چارماہ میں گنڈا پور نے چارتو کیا، ایک بھی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ گنڈاپور کے مقابلے میں ہماری وزیر اعلیٰ مریم نواز کی کارکردگی کہیں بہتر ہے۔ ایک عورت ہونے اور تجربہ نہ رکھنے کے با وجود مریم نواز شریف نے آتے ہی کئی کام کئےے۔ مریم نواز کی پرفارمینس تینوں دیگر وزراءاعلیٰ سے بہتر ہے۔ اگر مریم نواز شریف ہر وقت سوٹ اور اپنے گیٹ اپ بدلنے، پروجیکشن ٹول استعمال کرنے کے بجائے صرف پرفارمینس پر زور دیں تو انھیں زیادہ پذیرائی ملے گی۔ بہر حال امین گنڈا پور نے صوبہ کو ’گندا پور‘ بنانے کی حرکت کی ہے۔ انکے مقابلے میں گورنر کے پی کے فیصل کنڈی کا رویہ میچور اور مہذبانہ ہے۔ فیصل کنڈی نے اس دوران معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی۔ افہام و تفہیم پر زور دیا بلکہ گنڈ اپور کو خیر سگالی اور محبت کا پیغام بھیجا۔ امین گنڈا پور نے فیصل کنڈی کو گورنر ہاﺅس سے نکالنے کی دھمکیاں دیں اور بدزبانی کی انتہا کر دی۔ فیصل کنڈی نے پھر بھی مصالحت کی کوشش کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو گورنر ہاﺅس مدعو کیا۔ اس سارے عرصے میں ہونے والی دونوں اہم عہدوں کی شخصیات کی گفتگو سے وا ضح اندازہ ہوا کہ تصادم کو ن چا ہتا ہے اور صوبے کی بھلائی کسے عزیز ہے۔ اس وقت جب ملک شدید معا شی، معا شرتی، سیاسی، سفا رتی اور نفسیاتی بحرانوں کا شکار ہے۔ لوگ مہنگائی، بیرروزگاری، ٹیکسوں اور مستقبل کی بے یقینی میں مبتلا ہیں تو ایسے وقت میں لڑا ئی جھگڑے، گالی گلوچ اور تصادم احمقانہ طرز عمل ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعلیٰ میں علم، تربیت، شعور اور میچورٹی کی شدید کمی ہے۔ جس وزیر اعلیٰ کو عوام کے مسائل کے بجائے پھڈے اور لفڑے پسند ہوں۔ وہ عوام کی کیا خاک خدمت کر ے گا۔ پی ٹی آئی کی طفلانہ اور حا سدانہ حرکتیں نہ کل ختم ہو ئی تھیں نہ آج ہو ئی ہیں۔ وہ عوام کی خدمت کی بجائے صرف توجہ حا صل کرنے کی منفی ہتھکنڈے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ جہاں تک فیصل کریم کنڈی کا تعلق ہے تو وہ ایک تعلیمیافتہ اور مہذب شخصیت ہیں ۔پیپلز پارٹی کی تین بڑی خوبیاں ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اُنکا ورکر بھی کام کرتا ہے اور اُسے مسئلہ ہو تو پیپلز پارٹی اُسے عزت اور مدد دیتی ہے۔ اسکی شروعات بھٹو نے کی۔ بینظیر بھٹو نے خواتین کو بے پناہ عزت، احترام اور مقام دیا۔ آگے چل کر آصف زرداری نے اپنی پارٹی کے قابل لوگوں کو مقام اور مواقع دئیے۔ بلاول بھٹو نے سب کی رائے کا احترام کیا اور سب کے ساتھ رواداری سے چلے۔ خود بلاول بھٹو میں کسی عہدے منصب کا لالچ نہیں ہے۔ اگر بلاول بھٹو چا ہتے تو اس مرتبہ ہی وہ وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ وزیر اعلیٰ کا عہدہ لے سکتے تھے یا پھر وزیر خارجہ بن سکتے تھے لیکن انہوں نے دوسروں کو موقع دیا اور خود اعلیٰ ضرفی دکھائی۔ اسی لیے میں کہتی ہوں کہ اگلا اور مستقل وزیر اعظم بلاول بھٹو ہوں گے۔ البتہ یہ نظر آ رہا ہے کہ چند ماہ بعد محسن نقوی وزارتِ اعظمیٰ سنبھالیں گے۔ اسکا انحصار بجٹ پر ہے۔ بجٹ عوام کے لیے مشکلات لایا تو ہر صورت وزیر اعظم بدلنا پڑے گا۔ بہر حال پیپلز پارٹی کو آصف زرداری چلا رہے ہیں اور انہوں نے پارٹی کو نہایت اچھے طریقے سے منظم کر رکھا ہے۔ آصف زرداری دوستوں کے دوست اور بہت دیالو انسان ہیں۔ وہ کھاتے ہیں لیکن سب کو کھلاتے بھی ہیں۔ اپنی پارٹی کے کارکنوں تک کا خیال رکھتے ہیں۔ آصف زرداری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جس نے کبھی اُن پر احسان کیا۔ انھیں عزت دی تو انہوں نے ہمیشہ اسکا بہترین جواب دیا ہے۔ وہ اپنے قدر کرنے والوں کی قدر کرتے ہیں اور پارٹی کو انہوں نے ایک مالا میںپروص رکھا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ پیپلز پارٹی میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور مہذب سیاستدان ہیں کیونکہ بھٹو، بینظیربھٹو کے بعد آصف زرداری نے پارٹی کی تربیت کی ہے۔ اب جبکہ بلاجواز خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ نے گورنر کو خوش آمدید کہنے کے بجائے شر انگیزی کو دعوت دی۔ بڑ ہکیں ماریں۔ ناچ ناچ کر اور چیخ چیخ کر گورنر کو دھمکیاں دیں تو اس سے تربیت، تہذیب، علم اور ظرف کا پتہ چل گیا ہے۔ فیصل کنڈی نے اپنے اخلاق اور تہذیب سے سب کے دل جیت لیے۔ اخلاقی فتح فیصل کنڈی کو ملی۔ 

ای پیپر دی نیشن