پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
عوام مکمل طور پر جان چکی ہے کہ نواز شریف کی جگہ آنے والے کے پاس یک نکاتی ایجنڈا تھا ،اس نے ساڑھے تین سالوں میں صبح دوپہر شام نہ صرف مخالفین کیخلاف پر اپیگنڈہ کیا بلکہ انھیں جیلوں میں ڈال کر متعدد لیگی رہنماﺅں کو نااہل کروادیا،جو لیگی رہنما بچ گئے انھیں عملی طور پر عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور کردیا، متعدد لیگی رہنماﺅں کے کاروبار تباہ کروا کر اس نے سمجھاکہ اس طرح ن لیگ کا مکمل صفایا ہوجائیگا ،اس کو کسی ایک بھی سیانے نے نہیں بتایاتھا کہ ایک آمر نے نو سال ن لیگ کیخلاف محاذ کھولے رکھا لیکن مجال ہے کسی نے نواز شریف کیساتھ بے وفائی کی ہو، اس بار بھی ایسا ہی ہوا اسے ن لیگی رہنماﺅں کی لڑی میں ایک بھی وعدہ معاف گواہ نہ ملا اور نہ ہی کسی نے پریس کانفرنس کرکے مسلم لیگ ن کو چھوڑنے کا اعلان کیا، ماضی طرح اس بار بھی ن لیگ کے ہر رہنما نے تمام مشکلات کا سامنا بہادری سے کیا،جب اس نے کرسی اقتدار پر قبضہ کیا تو اس کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ اس کا کام صرف اور صرف اپوزیشن کا صفایا کرنا ہے جس میں اسے کسی جانب سے مخالفت اور مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا،اسے ہر محاذ پر کھلم کھلا تعاون دستیاب رہا،اس کو یہ بھی غلط فہمی تھی کہ معاشی معاملات خود بخود ہینڈل ہوجائیں گے جیسے پشاور اور کراچی میں اسکے نجی ہسپتال خود کار طریقے سے بننا شروع ہو گئے، جب سے وہ حکومت میں آیا اس پر چندے کیلئے ہر طرف سے پیسہ برسنا شروع ہوگیا تو وہ اس ایزی منی کی جانب ہی مصروف ہوتا چلا گیا ،ہر ملاقات چمک کی وصولی کے وعدےپر طے ہونے لگی یہاں تک کہ چھوٹےایدھی کو عوام سے وصول کئےگئے چندے کا چیک اس کو چندہ کرنا پڑا جس پر کافی لے دے ہوئی لیکن اس کے کانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا،جیسے جیسے دن گزرتے چلے گئے اسکے ذاتی مالی حالات خوب سے خوب تر جبکہ ملکی اور عوامی معاشی معاملات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے،اس نے قریبی دوستوں کو معاشی ماہر قرار دیکروزیر خزانہ لگایا لیکن المیہ یہ ہوا کہ وہ چاروں نہ صرف اسے چھوڑ کر چلے بلکہ انھوں نے برملا کہا کہ خزانہ خالی ہےملک دیوالیہ ہوجائیگا، اسکی اپنی پارٹی میں سے جو جو اسے چھوڑ کر گیا اس نے برملا یہ کہا کہ وہ محض اناڑی نہیں بلکہ غیر منتظم اور شدید درجے کا نااہل ہے، ملک کے معاملات چلانا نہیں اس کے بس کی بات نہیں تھی، عوامی حمایت کرنے کیلئے ہر سربراہ حکومت کی کوئی نہ کوئی تو ترجیحات ہوتی ہیں لیکن وہ بدترین کج فہم نکلا ، وہ سمجھتا تھاکہ اسکی ذمہ داری صرف اور صرف آستینیں چڑھا کر مخالفین کو للکارنا اور برے القاب سے پکارنا ہے ،معاشی اصلاحات سے نابلد یہ نمونہ اپنے تمام قریبی دوستوں اور خیر خواہوں کی توقع سے بھی کہیں زیادہ نکما نکلا، محض ساڑھے تین سالوں میں معیشت حقیقت میںڈوبنے لگی ،جب آئی ایم ایف، ورلڈ بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سمیت تمام عالمی ادارے چیخنا شرو ع ہوگئے کہ ملک دیوالیہ ہونے کو ہےساور تنخواہیں بھی قرض لیکر دی جانے لگی ہیںتو تمام سٹیک ہولڈرز نے اسکی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا،اس کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے، آج اسی تباہ حال معیشت کو پنجاب میں مریم نواز اور مرکز میں شہباز شریف سنبھالے ہوئے ہیں،جہاں کوئی وزیر خزانہ ٹکتا نہیں تھا وہاں نہ صرف پٹرول اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں گر رہی ہیںبلکہ مہنگائی کے گراف میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے، ان حالات میں نوازشریف کا پارٹی صدر منتخب ہونا نہایت اہمیت کا حامل ہے،سیاسی استحکام کی وجہ سے پہلے ہی سٹاک ایکسچینج نہ صرف مستحکم ہے بلکہ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو کر نئے ریکارڈ بنا ری ہے،اعلی عدلیہ کی جانب سے دوبارہ آنیوالے فیصلے اور ریمارکس ثابت کرتے ہیں کہ ماضی میں نوازشریف جو اعتراضات اٹھایا کرتے تھے وہ سو فیصد درست تھے،مسلم لیگی قیادت کی جانب سے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا اعلان ہوچکا ہےاس سے ظاہر ہوتا کہ لیگی قیادت اب جارحانہ سیاست کریگی اور کسی بھی سیاسی مخالف کو پتلی گلی سے نکلنے کا موقع نہیں دیا جائیگا، نواز شریف تاریخ کے اس مقام پر ا?ن کھڑے ہوئے ہیںجہاں اگر کوئی بیرونی مداخلت نہ ہوئی تو حقیقت میں پرانا ترقی کرتا ہوا پاکستان بحال ہوجائیگا۔