گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان کے حالات،معاشی صورت حال، سیاسی صورت حال اور معاشرتی صورت حال کس نہج پر پہنچ چکی ہے۔ قارئین نوائے وقت یہ وہ الفاظ ہیں جومجھے ہر ڈیڑھ دوسال کے بعد اپنے کالم میں لکھنے پڑتے ہیں۔ آج پھر مجھے یہ لکھتے ہوئے ذرا سی بھی جھجک محسوس نہیں ہورہی کہ پاکستان واقعی اس وقت نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے اردگرد کے حالات دیکھیں۔ ایک طرف ایران،اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مسلسل جنگ کی حالت میں ہے۔ دوسری طرف افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت بھارت کے ساتھ ہنی مون پیریئڈمیں ہے۔کبھی وہ نہروں کا افتتاح کر رہے ہیں، کبھی وہ سڑکوں کا افتتاح کر رہے ہیں۔ کبھی ان کو دیکھیں تو اپنی کرنسی اور ہماری کرنسی کا کمپیرزم کرکے ہمیں یہ جتلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم پاکستان سے آگے چلے گئے ہیں حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ ان کو دنیا میں اس وقت کوئی ملک تسلیم کرنا تو دور کی بات ان کے ساتھ کسی قسم کالین دین کرنے کے قابل نہیں سمجھتا پھر ان کی کرنسی کا لیول پاکستان کے مقابلے میں کیسے آ سکتا ہے۔ایک طرف ہمارے چین ہے چند دن پہلے چین نے اپنی فوجیں بڑی تعداد میں انڈین بارڈر لداخ پر پہنچا دی ہیں۔ اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ جب انڈیا نے پچھلے دنوں کشمیر میں ہونے والے احتجاج اور ہنگاموں کی صورت میں ہونے والے واقعات کے بعد پاکستان پر اچانک چڑھائی کرکے آزاد کشمیر پر قبضے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو چین نے اس کو بھرپور جواب دینے کے لیے چینی فوج کو لداخ بارڈر پر اکٹھا کرنا شروع کر دیا جس سے بھارت اسی وقت خاموش ہو گیا اور مودی صاحب دوبارہ اپنی انتخابی مہم میں مشغول ہو گئے۔جبکہ حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر کے لوگوں کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔ بھارت کا یہ حال کہ بھارت میں ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں اس وقت بھی بھارت اپنے الیکشن میں مصروف ہے۔سات مرحلوں میں ہونے والا یہ الیکشن جس کے چار مرحلے انجام پا چکے ہیں اور تین مراحل باقی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک سو چالیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں الیکشن کوتقریباً دو مہینوں پر محیط کر دیا ہے اور سات زون بنا کر ان میں الیکشن کر وا رہے ہیں جن میں چار زون کے الیکشن آج کا یہ کالم کے پڑھنے کے بعد مکمل ہو چکے ہوں گے۔ اس وقت جیسا کہ میں نے اپنے گذشتہ کالم میں قارئین نوائے وقت کو بتایا تھا کہ انڈیا کے اندر یہ حالات ہیں کہ مودی صاحب کو اپنا ٹارگٹ مکمل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے اور ٹارگٹ نظر نہ آنے کی وجہ سے مودی صاحب دوسری پوزیشن میں سیٹ اپ ان کا تباہ ہونے کو جا رہا ہے۔آج ایک انڈین تجزیہ نگار جو بھارت میں بہت مشہور ہیں جن کو ڈاکٹر شاردا کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے یہ بہت بڑے اینلسٹ ہیںاور تجزیہ نگار ہیں۔پوری دنیا میں ان کی قدر کی جاتی ہے میری ان سے آج ملاقات ہوئی تو مجھے ڈاکٹر شاردا نے بتایا کہ مودی صاحب نے جو توقع لگارکھی تھی کہ ہم پانچوں سو بتالیس سیٹوں میں سے چار سو سیٹیں لے جائیں گے اور اب یہ چار سو سیٹیں پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ ڈاکٹر شاردا جو ایک براہمن ہندو ہیں ان کے مطابق مودی اس الیکشن میں تقریباً 250سے260سیٹیں نکالنے میں شاید کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن دنیا بھر کے انڈی پینڈنٹ تجزیہ نگاروں سے جب بات کریں تووہ کہتے ہیں کہ شاید اس دفعہ راہول گاندھی اور ان کا انڈین نیشنل اتحاد وہ بھی شاید اتنی سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جائے۔جب کہ تین سو بیالیس سیٹوں پر کانگریس اور بی جے پی کا ڈائریکٹ آمنا سامنا ہے۔
اب ذراپاکستان کو دیکھیں۔پاکستان میں الیکشن ہوئے وہ فیل، پاکستان میں بجٹ بنایا جاتا ہے وہ فیل، ہر دو ماہ بعد ، ہر چھے ہفتے بعد منی اور ضمنی بجٹ سامنے آ جاتا ہے۔تیل کی قیمتیں، گیس کی قیمتیں،پانی کی قیمتیں، دودھ کی قیمتیں،گندم کی قیمتیں،بسکٹ کی قیمتیں یعنی ہر چیز کی قیمت تین ماہ کیا ہر تین دن کے بعد بدلتی ہیں۔کوئی ریٹ لسٹ نہیں ہوتی ،اس لیے تاجران اور ناجائز منافع خور ہر روز ریٹ اپنی مرضی کے مطابق بدل لیتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے الیکشن بارے آئی ایم ایف کی رائے پاکستان کیلئے سیٹ بیک ہے۔جو پریشان کن ہے۔ اپنی تازہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے صاف لکھا ہے کہ پاکستان فری اینڈ فیئر الیکشن کرانے میں ناکام رہا۔ بلکہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں اتنے ناکام الیکشن نہیں کروائے گئے۔ یہ الزام وہ ادارہ دے رہا ہے جس نے پاکستان کو اس کی تنخواہوں کے لیے قرض دینا ہوتا ، اس کے اخراجات کے لیے قرض دینا ہوتا ہے یا جس کے قرضے دینے کی صورت میں پاکستان کے دوست احباب ممالک نے پاکستان کو قرضے دینے ہوتے ہیں، جیسے چین، ترکی، امارات اور سعودی عرب وغیرہ۔
قارئین اکرام ان سب باتوں کی موجودگی میں ،میں یہ کہنا چاہوں گاکہ پاکستان کے اتنے حالات معاشی طور پر کبھی بھی خراب نہیں ہوئے تھے۔ سیاسی تو ہے ہی، سماجی تو ہے ہی، ہماری اخلاقیات تباہ ہو کر رہ گئی ہے ہمارے ملک میں ایک بے مقصد کیس بنا کر عوام کو جس طرح سزا دی جا رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ڈیڑھ سال میں تیس ہزار پاکستانیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ان کو سزائیں سنائی گئی۔ ان کی ضمانتیں نہیں ہونے دی گئیں۔ ان سب حالات میں پاکستان کے معاشی حالات، سماجی حالات ،سیاسی حالات ہیں ،فیملیاں خراب ہو گئی ہیں، فیملیوں کے اندر مزاج تبدیل ہو گئے، لوگوں کے مزاج تبدیل ہو گئے ہیں۔ میں یہ کہناچاہوں کہ پاکستان جن حالات سے اب گزر رہا ہے میں نے پچھلے چالیس پینتالیس سال ان جاگتیں آنکھوں کے ساتھ کبھی نہیں دیکھا۔ اس سے پہلے واقعی پاکستان کے حالات اس قدر بدتر نہیں تھے۔ اب آ جاتے ہیں کپتان کی طرف۔ کپتان کو ایک سال جیل میں رکھنے کے بعد جب حکومت کسی طرح بھی ان کو زیر نہیں کر سکی ، دبا نہیں سکی، تو ایک سال کے بعد جب ایک مقدمے کے سلسلے میں ان کو ایک عدالت میں طلب کیا جاتا ہے۔اس سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کپتان اپنے ہاں آنے والے لوگوں کو ٹی (چائے)پلاتے تھے۔اور کبھی وہ تکلف کر لیتے تو ٹی کے ساتھ بسکٹ بھی ہوتا تھا۔ وہ خوش قسمت ہوتا تھا جس کو ٹی کے ساتھ بسکٹ مل جاتا تھا۔ چند روز پہلے جب کپتان کو سپریم کورٹ میں بلایا گیا ،فزیکلی تو وہ نہیں آ سکتے ان کو ویڈیو لنک پر آنے کی اجازت دی گئی جس میں کپتان کو بولنے نہیں دیا گا ،کسی اچانک مصلحت کے تحت۔لیکن جب ان کی تصویر دکھائی گئی تو وہ ایک نیلی آسمانی پولوشرٹ میں نظر آئے۔ پھر اس کے بعد وہ تصویر لیک ہوئی ،اس کی ایک علیحدہ داستان ہے جو آپ کو سوشل میڈیا ، نیوز ایجنسیوں اور اخبارات و چینل سے موصول ہو رہی ہے۔ لیکن سب کے باوجود آج حالت یہ ہے کہ پاکستان کا ہر نوجوان تقریباً وہ نیلی شرٹ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ پاکستان کے ہر سٹور، بوتیک میں نیلی رنگ کی شرٹیں ختم ہو چکی ہیں۔ شہروں میں دیکھیں کپتان کی وہی نیلی شرٹ سامنے رکھ کر مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔آج ملک کے ان حالات میں وہ پہلے خان کی چائے مشہور تھی۔ مودی کے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی چائے سے بھی زیادہ شہرت رکھتی تھی۔ اب ٹی شرٹ مشہور ہو گئی ہے۔تو خوفزدہ معاشرہ، خوفزدہ حکومت جب تک ٹی اور ٹی شرٹ والے کے خوف میں مبتلا رہے گی نہ تو وہ ملک ترقی کر پائے گا ،نہ معاشرہ ترقی کر پائے گا اور نہ پاکستان کے حالات ٹھیک ہوں گے۔ کیوں نہ اقوام متحدہ یا او آئی سی کی نگرانی میں ایک فری اینڈ فیئر الیکشن منعقد کروا دیئے جائیں تاکہ کسی کوکوئی شبہ نہ رہے۔ اگر ہم سچے ہیں اور پاکستان بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان بچانے کے لیے کوئی ایسا قدم اٹھانا ہوگا جہاں پھر سے لوگوں کا اپنی حکومت پر اعتماد بحال ہو اور جب تک اعتماد بحال نہیں ہوگا، نہ پاکستان ترقی کرے گا، نہ پاکستان کی حکومت مضبوط و مستحکم ہوگی ، نہ ہی پاکستان کے عوام ترقی وخوشحالی کی منزل کی طرف بڑھ سکیں گے۔ اس لیے یہ ٹی اور ٹی شرٹ کے چکروں میں مت پڑیں۔پاکستان کو آگے لے کر چلنا ہے اور آگے لے کر کیسے چلنا یہ ہم سب جانتے ہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔