ایرانی صدر کا سانحہ، حادثہ یا سازش؟

 تصور حسین شہزاد
ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم ریئسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان، آذربائیجان کے مشرقی صوبے کے گورنر مالک راحتی، صدر کے سکیورٹی یونٹ کے کمانڈر سردار سید مہدی موسوی اور دیگر ایرانی حکام ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو چکے ہیں۔ ایرانی حکومت نے باضابطہ اعلان دیا ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم ریئسی کی شہادت کے بعد ایران کے نائب صدر محمد مخبر نے دو ماہ کیلئے ملک کی صدارت سنبھال لی ہے۔ محمد مخبر کی بطور عبوری صدر تقرری کا اعلان آج رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی منظوری کے بعد کیا گیا۔ ایران کے آئین کے مطابق 50 دنوں کے اندر اندر نئے صدارتی انتخابات کروائے جائیں گے۔ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کا واقعہ، حادثہ ہے یا سازش، اس پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ جہاں تک تحقیقات کی بات ہے تو ایران کے تحقیقاتی اداروں نے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔ لیکن امکان غالب یہی ہے کہ اس میں اسرائیل کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل ایسے معاملات میں سازشوں میں خاص ملکہ رکھتا ہے اور قوی امکان ہے کہ اس سازش میں بھی اسرائیل ہی کا ہاتھ نکل آئے۔ ایرانی صدر ابراہیم ریئسی کو نشانہ بنائے جانے کی دو بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو وہ خطے میں ایران کی تنہائی کو کامیابی سے ختم کر رہے تھے۔ ایسے حالات و تعلقات بنا رہے تھے، جس سے ایران کو فائدہ پہنچ رہا تھا، اور ایران کے ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ دوسری بڑی وجہ، ڈاکٹر ابراہیم ریئسی رہبر کے امیدوار تھے، اور آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بعد انہیں ہی رہبر کے عہدے پر فائز کئے جانے کی اطلاعات تھی۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے کہ اسرائیل نے انہیں رہبر کے منصب پر پہنچنے سے پہلے ہی راستے سے ہٹانے کا پلان بنایا ہوا۔ ابراہیم رئیسی ایران کے بہت باحمیت کے قائد تھے۔ انہوں نے امن کیلئے بہت کوششیں کیں اور خطے میں ایران کا قد بڑھایا، ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو بھی ایک نئی جہت دے کر آگے بڑھایا۔ ابراہیم رئیسی امن کے داعی شخص تھے، جن کی شہادت کا خطے کو نقصان ہوگا۔ ابراہیم ریئیسی کی ہدایت پر ہی نے اسرائیل کے حملے پر ایران نے بھرپور جواب دیا، ایرانی جوابی کارروائی پر اسرائیل جنگ نہیں کر سکا، اور امریکا نے بھی کہا کہ ایران پر کوئی حملہ نہیں کیا جائے گا، اس سے ایران کی پوزیشن بہت مستحکم ہو گئی ہے۔ یہ سب ابراہیم ریئسی کی کامیاب پالیسی اور حکمت عملی سے ممکن ہوا۔ دشمن آج بھی ایران سے خوف کھاتا ہے، اس لئے چھپ چھپ کر وار کر رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کا نیا صدر ان کی پالیسیوں کو آئے بڑھا پائے گا۔ ؟ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ جی ہاں، کیونکہ ڈاکٹر ابراہیم ریئسی کی پالیسیوں سے ایران کو کافی کامیابیاں ملی ہیں۔ اور ایران نہیں چاہے گا کہ وہ ابراہیم ریئسی کی پالیسیوں کو چھوڑ دے، تو اس حوالے سے باقاعدہ ابراہیم ریئسی کی پالیسیوں کو آئے بڑھایا جائے گا۔ برکس کو جب توسیع دی گئی، تو سعودی عرب کیساتھ ایران بھی آیا تھا، تو اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا، کہ ایران کو اس پالیسی سے فائدہ ہو رہا ہے۔ اب یہ طے کرنا ہے کہ یہ حادثہ ہوا کیسے؟ کیا یہ حادثہ تھا یا سازش تھی، یہ ابھی طے ہونا ہے، یہ ابھی قیاس آرائیاں ہیں، اس پر ہم ابھی تبصرہ نہیں کر سکتے، نہ ہی کرنا چاہئے۔ جب تک ایرانی تحقیقاتی ایجنسیاں یہ بتا نہ دیں کہ یہ حادثہ نہیں تھا، یہ تو سبوتاڑ تھا، پھر تو بہت خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں، ابھی اس پر کچھ کہنا مناسب نہیں۔ دشمن اگر یہ سمجھ رہا ہے کہ ابراہیم ریئسی کو شہید کرکے وہ ایران کو تنہا کرنے میں کامیاب ہو گا، تو یہ شائد اس کی خوش فہمی ہے، ایران کی پالیسیاں فرد واحد بناتا ہے نہ فرد واحد کے گرد گھومتی ہیں، بلکہ باقاعدہ پالیسی ساز ادارہ ہے جو پالیسیوں پر نظر بھی رکھتا ہے، اور انہیں کامیاب بھی کرواتا ہے۔ شہید ابراہیم ریئسی فلسطین و کشمیر کے حوالے سے بہت مضبوط موقف رکھتے تھے اور مظلوموں کے حامی تھے۔ ابراہیم ریئسی حقیقی طور پر انقلابی تھے۔ وہ امام خمینی کے اس گروپ کا بھی حصہ تھے، جو حقیقی اسلامی انقلاب کو آئے لے کر جا رہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں انقلاب اسلامی کے حقیقی محافظ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن کا اعلیٰ ہدف تھے۔ اور اس سانحہ کے بعد دشمن خوش ہوگا کہ شائد انقلاب کو بہت بڑا دھچکا پہنچا دیا ہے، لیکن انقلاب کی حفاظت کوئی اور کر رہا ہے، وہاں اسرائیل تو کیا اس کے باپ کو بھی رسائی حاصل نہیں۔ ادھر صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں وفات پر گہرے صدمے اور افسوس کا اظہار کیا۔ صدر مملکت نے ایرانی صدر، وزیر خارجہ اور حادثے میں جاں بحق دیگر افراد کے سوگواران سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مسلم امہ کیلئے سابق صدر ابراہیم رئیسی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر ابراہیم رئیسی امت مسلمہ کے اتحاد کے بڑے حامی تھے، عالم اسلام ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گیا، ایرانی صدر فلسطینی اور کشمیری عوام سمیت عالمی سطح پر مسلمانوں کے درد کو دل سے محسوس کرتے، آج پاکستان ایک عظیم دوست کو کھو دینے پر سوگوار ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ابراہیم رئیسی کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہیلی کاپٹر کریش ہونے کے واقعے کو بے چینی سے دیکھ رہے تھے، ہمیں اچھی خبر کی امید تھی تاہم افسوس ایسا نہیں ہوا۔ صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے اچھے دوست تھے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے اس بڑے نقصان پر ایرانی عوام کیساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں، پاکستان کا قومی پرچم تین دن سرنگوں رہے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے افسوسناک واقعہ پر ایرانی حکومت اور عوام سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت پر دلی رنج اور صدمہ ہوا، ہم ایرانی حکومت اور عوام کے غم میں برابر کے شریک ہیں، پاکستانی حکومت اور عوام دکھ کے وقت ایران کیساتھ کھڑے ہیں۔ ابراہیم ریئسی کے پروفائل کے مطابق چودہ دسمبر 1960 کو ایران کے شہر مشہد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہونیوالے ابراہیم رئیسی ایک عظیم سیاستدان، اسلامی قانون دان اور مصنف بھی تھے۔ ابراہیم رئیسی نے مذہبی تعلیمات کا آغاز قم کے مدرسے سے کیا اور 20 سال کی عمر میں ہی وہ ایران کے عدالتی نظام کا حصہ بن گئے تھے۔ کرج شہر کے پراسیکیوٹر نامزد ہونے سے لیکر ہمدان اور پھر تہران کے پراسیکیوٹر جنرل بنے، وہاں سے جوڈیشل اتھارٹی کے نائب سربراہ اور پھر 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹڑ جنرل مقرر ہوئے۔ 2017 کا صدارتی الیکشن وہ صدر حسن روحانی سے ہار گئے، تاہم دوسری مرتبہ 2021 میں وہ 62.9 فیصد ووٹوں سے ایران کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے۔ اقتدار کے ایک سال بعد ہی ابراہیم رئیسی کی حکومت کو 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ خارجہ پالیسی میں ابراہیم رئیسی علاقائی خودمختاری کے حامی مانے جاتے تھے، امریکی افواج کے انخلاءکے بعد انہوں نے افغانستان میں استحکام کی حمایت کی اور کہا کہ افغان سرحد کے اطراف داعش جیسے کسی بھی دہشت گرد گروپ کو پیر جمانے نہیں دیا جائے گا۔ ابراہیم رئیسی نے شام کیساتھ اسٹریٹجک روابط مستحکم کیے، یمن میں سعودی ناکہ بندی کی شدید مخالفت کی، یوکرین جنگ میں روس کی حمایت کا اعلان کیا۔ 2023 کے دورہ چین میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے 20 معاہدے کیے اور کچھ ہی دن بعد ابراہیم رئیسی کی قیادت میں ایران اور سعودی عرب نے 2016 سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کر لیے۔ ا±نہوں نے غزہ جنگ میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی اور کہا کہ امریکا کی مدد سے اسرائیل، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ پچھلے مہینے اپریل میں ہی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، جس میں دونوں ملکوں نے باہمی تجارت 10 ارب ڈالر زتک بڑھانے کا عہد کیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...