منگل ‘ 12 ذیقعد 1445ھ ‘ 21 مئی 2024

بلوچستان میں 100 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر میں شدید کرپشن۔
یہ بات تو سمجھ سے بالا تر ہے کہ بلوچستان میں ہی ہر کام میں نقص کیوں نکلتا ہے۔ یہ صوبے کے اپنے عوامی نمائندوں اور سرکاری ملازمین و ٹھیکیداروں کی مہربانی ہی ہے کیونکہ وہاں اب سارا کاروبار حیات وہاں کے اپنے باشندوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے صوبے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور جب دیکھیں الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ کیا وہاں کے لوگوں کو اپنے صوبے پر ترس نہیں آتا جہاں پہلے ہی پسماندگی ان کی مہربانیوں سے عروج پر ہے۔ اب یہی دیکھ لیں اگر خوش قسمتی سے دو برسوں میں بارش معمول سے زیادہ ہو رہی ہے تو پانی محفوظ رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ ہر سال بلوچستان میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے جاری ہوتے ہیں جو سب کھوہ کھاتے میں چلے جاتے ہیں مٹی اور پتھروں کی دیواریں بنا کر اسے ڈیم کا نام دے کر کاغذوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور پیسے ہڑپ ہو جاتے ہیں۔ اب حال ہی میں جو تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی ہے اس کے مطابق بلوچستان میں 100 ڈیموں کی تعمیر میں زبردست کرپشن ہوئی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کرپشن ڈیم تعمیر ہوئے۔ حالانکہ اس صوبے میں سب سے زیادہ پانی کی قلت ہے اور ضرورت بھی سب سے زیادہ ہے۔ مگر ہر سال ہم دیکھ رہے ہیں کہ زیادہ بارش ہو تو سیلاب سے نقصان بھی یہاں بہت ہوتا ہے۔ یوں کافی پانی بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر یہ بارانی ڈیم ایمانداری سے تعمیر ہوتے تو یہ پانی سٹور کیا جا سکتا تھا مگر یہ کاغذی ڈیم تو پہلی بارش کے ساتھ ہی بہہ جاتے ہیں ان کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اب دیکھتے ہیں نئی حکومت اس رپورٹ پر کیا ایکشن لیتی ہے۔ 
٭٭٭٭
بشکیک میں سفارتخانے والوں نے مدد نہیں کی ، پھنسے طلبہ کی شکایت۔ 
بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں کے حوالے سے یہ شکایت عام ہے کہ وہاں تارکین وطن کی نہیں س±نی جاتی۔ خدانخواستہ کوئی مسئلہ ہو جائے تو سفارتخانے والے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ داد رسی کرنے کی بجائے رابطہ ہی منقطع کر دیتے ہیں۔ اب ایسی ہی شکایات بشکیک میں پھنسے پاکستانی طلبہ کی طرف سے بھی متواتر مل رہی ہیں کہ اس مشکل وقت میں جب ان کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ وہ عملاً بھوکے پیاسے محصور تھے اور کرغزستان کے ہنگامہ آرائی کرنے والے لوگ انہیں مار پیٹ اور زد کوب کر رہے تھے۔ جب انہوں نے اس سلسلے میں سفارتخانے سے رابطہ کیا تو کسی نے بھی فون تک اٹھانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ اس سے وہاں پھنسے طلبا و طالبات کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اوپر سے موبائل پر ان کا گھر والوں سے جب رابطہ ہوا اور انہیں حالات کا پتہ چلا تو یہ پریشانی دوچند ہو گئی۔ انہوں نے یہاں سے ہر طرف فون کھڑکانا شروع کر دئیے کہ کہیں سے دادرسی ہو۔ معاملہ جب حکومت کے علم میں آیا تو اس نے فوری ایکشن لیا۔ مگر اس عرصہ میں بشکیک میں پھنسے طلبا و طالبات اور ان کے گھر والوں کی جان سولی پر اٹکی رہی۔ کرغزستان میں سینکڑں پاکستانی طلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہاں میڈیکل تعلیم کے اخراجات بہت کم ہیں اس لیے یہ طلبہ وہاں پڑھتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر ممالک کے طلبہ و طالبات بھی وہاں پڑھنے آتے ہیں جن میں انڈیا، بنگلہ دیش، مصر وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اب اس پر مقامی آبادی میں کچھ غم و غصہ تو لازمی ہوا ہو گا۔ اوپر سے اوباش افراد بھی ان طلبہ و طالبات کو تنگ کرنے لگے تھے جس کی وجہ سے مصری طلبہ مشتعل ہو گئے اور لڑائی کی بنیاد پڑی جس کے بعد کرغز نوجوانوں نے بلاتفریق سب طلبا کو نشانہ بنایا۔ ان کی مارپیٹ کی جس کی وجہ سے یہ صورتحال پیش آئی۔ اب قدرے سکون ہے۔ وہاں کی حکومت نے شرپسندوں سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے۔ مگر پاکستانی و دیگر طلبہ اپنے اپنے ملک واپس جانے کو ترجیح دے رہے ہیں
وہ اب چیف جسٹس کے بعدآرمی چیف کو بھی دبنگ سپہ سالارکہیں گے۔خواجہ آصف۔
اس وقت خواجہ آصف پی آئی ٹی کے شدید ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔ آئے روز وہ کسی نہ کسی حوالے سے کھلاڑیوں کے لتے لیتے نظر آتے ہیں۔ جہاندیدہ پرانے سیاستدان ہیں اس لیے الفاظ کا چناﺅ اور وار بھی ان کا قدرے کاری ہوتا ہے۔ اسمبلی میں بھی وہ ان چند رہنماﺅں میں شامل ہیں جو کھلاڑیوں پر جوابی وار کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں گرچہ بلاول نے بھی اپنی پارلیمنٹ کی تقریر میں خوب رنگ جمایا، رونق لگائی۔ دوسری طرف سے بھی خوب جوابی کارروائی ہوئی حملے ہوتے رہے۔ یوں اسمبلی میں خوب چہل پہل نظر آئی۔ اب یہ دیکھ لیں گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں بند پی ٹی آئی کے بانی نے موجودہ چیف جسٹس کے حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ چیف جسٹس دبنگ آدمی ہیں وہ انصاف کریں گے۔ بس اس پر بھی خواجہ آصف کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے فوراً بیان جاری کیا کہ اب تو قیدی آرمی چیف کو بھی دبنگ سپہ سالار کہے گا۔ 
اب اس میں بھلا خواجہ کب چپ رہتے۔ انہوں نے ذومعنی جملہ کہہ کر بات کہہ دی مطلب یہی تھا کہ آج کل خود کو بے اختیار وزیر اعظم کہہ کر سارے معاملات اس وقت کے آرمی چیف کے سر ڈالنے والا کپتان اس وقت کے سپہ سالار کو بھی دبنگ سپہ سالار اور چیف جسٹس کو دبنگ جج کہتے تھے مگر اب ان سے جان چھڑا رہے ہیں۔ 
اب کچھ نئے کیس سامنے آنے کے بعد دیکھنا ہے کہ عدالت اڈیالہ جیل کے قیدی کے حوالے سے کیا فیصلے کرتی ہے۔ ابھی تک تو انہیں کافی رعایت ملنے پر ضمانتوں پر حکومت اور اس کے اتحادی کافی ج±ز ب±ز ہو رہے ہیں جس کا اظہار ان کے بیانات سے بھی ہوتا ہے جو خاصے جلے کٹے ہوتے ہیں۔ 
گرمی بڑھتے ہی ہسپتالوں میں گیسٹرو اور ڈائریا کے مریضوں کا رش۔ 
اس موسم میں گرمی کا توڑ کرنے کے لیے ہمارے ہاں ٹھنڈے مشروبات کا استعمال عام ہے۔ سڑکوں ، بازاروں میں مضر صحت مشروبات فروخت کرنے والے بھی ناقص اشیاءمثلاً برف کے گولے، دو نمبر شربت اور بوتلیں فروخت کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پیٹ کے امراض بڑھ جاتے ہیں اور ہسپتالوں میں رش لگ جاتا ہے۔ کیا بچے کیا بڑے جس کو دیکھو پیٹ پکڑے ہائے ہائے کرتا نظر آتا ہے۔ زیادہ پریشانی بچوں کی وجہ سے ہوتی ہے جو ڈائریا کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت لاغر ہو جاتے ہیں اور والدین بھی ان کی وجہ سے بہت پریشان ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر دو سے زیادہ مریض لیٹے نظر آتے ہیں۔ اس لیے اس موسم میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ باسی کھانا اور گلے سڑے پھل، گندا پانی۔ اسے پینے سے احتیاط ضروری ہے۔ مگر غریب لوگ کیا کریں انہیں فلٹر یا منرل پانی کہاں دستیاب ہے۔ نلکوں کا پانی بیماریاں بانٹتا پھرتا ہے۔ باسی کھانا ان کے نصیب میں لکھا ہوا ہے۔ وہ دن اور رات کو تازہ کھانا پکانے سے رہے اتنی ان میں سکت نہیں ہوتی۔ اس لیے کم از کم صاف پانی اور وبائی امراض کے اس موسم میں حکومت ہسپتالوں ، طبی مراکز میں ادویات کا وافر انتظام کرے تاکہ مریضوں کو ادویات دستیاب ہوں ، کم از کم اس طرح حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ لوگ بھی ناقص اشیاءکے استعمال سے پرہیز کریں اور گرمی میں باہر نکلنے سے گریز کریں۔ احتیاط اور پرہیز دوا سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ 

بلوچستا میں 100 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر میں شدید کرپش ۔
یہ بات تو سمجھ سے بالا تر ہے کہ بلوچستا میں ہی ہر کام میں قص کیوں کلتا ہے۔ یہ صوبے کے اپ ے عوامی ماءدوں اور سرکاری ملازمی و ٹھیکیداروں کی مہربا ی ہی ہے کیو کہ وہاں اب سارا کاروبار حیات وہاں کے اپ ے باش دوں کے ہاتھ میں ہے جو اپ ے صوبے کو دو وں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور جب دیکھیں الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ کیا وہاں کے لوگوں کو اپ ے صوبے پر ترس ہیں آتا جہاں پہلے ہی پسما دگی ا کی مہربا یوں سے عروج پر ہے۔ اب یہی دیکھ لیں اگر خوش قسمتی سے دو برسوں میں بارش معمول سے زیادہ ہو رہی ہے تو پا ی محفوظ رکھ ے کا کوئی ب دوبست ہیں ہے۔ ہر سال بلوچستا میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے جاری ہوتے ہیں جو سب کھوہ کھاتے میں چلے جاتے ہیں مٹی اور پتھروں کی دیواریں ب ا کر اسے ڈیم کا ام دے کر کاغذوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور پیسے ہڑپ ہو جاتے ہیں۔ اب حال ہی میں جو تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی ہے اس کے مطابق بلوچستا میں 100 ڈیموں کی تعمیر میں زبردست کرپش ہوئی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کرپش ڈیم تعمیر ہوئے۔ حالا کہ اس صوبے میں سب سے زیادہ پا ی کی قلت ہے اور ضرورت بھی سب سے زیادہ ہے۔ مگر ہر سال ہم دیکھ رہے ہیں کہ زیادہ بارش ہو تو سیلاب سے قصا بھی یہاں بہت ہوتا ہے۔ یوں کافی پا ی بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر یہ بارا ی ڈیم ایما داری سے تعمیر ہوتے تو یہ پا ی سٹور کیا جا سکتا تھا مگر یہ کاغذی ڈیم تو پہلی بارش کے ساتھ ہی بہہ جاتے ہیں ا کا ام و شا ہیں ملتا۔ اب دیکھتے ہیں ئی حکومت اس رپورٹ پر کیا ایکش لیتی ہے
بشکیک میں سفارتخا ے والوں ے مدد ہیں کی ، پھ سے طلبہ کی شکایت۔ن
بیرو ملک پاکستا ی سفارتخا وں کے حوالے سے یہ شکایت عام ہے کہ وہاں تارکی وط کی ہیں س± ی جاتی۔ خدا خواستہ کوئی مسئلہ ہو جائے تو سفارتخا ے والے لاتعلق ظر آتے ہیں۔ داد رسی کر ے کی بجائے رابطہ ہی م قطع کر دیتے ہیں۔ اب ایسی ہی شکایات بشکیک میں پھ سے پاکستا ی طلبہ کی طرف سے بھی متواتر مل رہی ہیں کہ اس مشکل وقت میں جب ا کی جا پر ب ی ہوئی تھی۔ وہ عملاً بھوکے پیاسے محصور تھے اور کرغزستا کے ہ گامہ آرائی کر ے والے لوگ ا ہیں مار پیٹ اور زد کوب کر رہے تھے۔ جب ا ہوں ے اس سلسلے میں سفارتخا ے سے رابطہ کیا تو کسی ے بھی فو تک اٹھا ے کی زحمت گوارہ ہیں کی۔ اس سے وہاں پھ سے طلبا و طالبات کی پریشا ی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اوپر سے موبائل پر ا کا گھر والوں سے جب رابطہ ہوا اور ا ہیں حالات کا پتہ چلا تو یہ پریشا ی دوچ د ہو گئی۔ ا ہوں ے یہاں سے ہر طرف فو کھڑکا ا شروع کر دئیے کہ کہیں سے دادرسی ہو۔ معاملہ جب حکومت کے علم میں آیا تو اس ے فوری ایکش لیا۔ مگر اس عرصہ میں بشکیک میں پھ سے طلبا و طالبات اور ا کے گھر والوں کی جا سولی پر اٹکی رہی۔ کرغزستا میں سی کڑں پاکستا ی طلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہاں میڈیکل تعلیم کے اخراجات بہت کم ہیں اس لیے یہ طلبہ وہاں پڑھتے ہیں۔ ا کے علاوہ دیگر ممالک کے طلبہ و طالبات بھی وہاں پڑھ ے آتے ہیں ج میں ا ڈیا، ب گلہ دیش، مصر وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اب اس پر مقامی آبادی میں کچھ غم و غصہ تو لازمی ہوا ہو گا۔ اوپر سے اوباش افراد بھی ا طلبہ و طالبات کو ت گ کر ے لگے تھے جس کی وجہ سے مصری طلبہ مشتعل ہو گئے اور لڑائی کی ب یاد پڑی جس کے بعد کرغز وجوا وں ے بلاتفریق سب طلبا کو شا ہ ب ایا۔ ا کی مارپیٹ کی جس کی وجہ سے یہ صورتحال پیش آئی۔ اب قدرے سکو ہے۔ وہاں کی حکومت ے شرپس دوں سے مٹ ے کا اعلا کیا ہے۔ مگر پاکستا ی و دیگر طلبہ اپ ے اپ ے ملک واپس جا ے کو ترجیح دے رہے ہیں
وہ اب چیف جسٹس کے بعدآرمی چیف کو بھی دب گ سپہ سالارکہیں گے۔خواجہ آصف۔
اس وقت خواجہ آصف پی آئی ٹی کے شدید اقدی میں شمار ہوتے ہیں۔ آئے روز وہ کسی ہ کسی حوالے سے کھلاڑیوں کے لتے لیتے ظر آتے ہیں۔ جہا دیدہ پرا ے سیاستدا ہیں اس لیے الفاظ کا چ اﺅ اور وار بھی ا کا قدرے کاری ہوتا ہے۔ اسمبلی میں بھی وہ ا چ د رہ ماﺅں میں شامل ہیں جو کھلاڑیوں پر جوابی وار کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ د وں گرچہ بلاول ے بھی اپ ی پارلیم ٹ کی تقریر میں خوب ر گ جمایا، رو ق لگائی۔ دوسری طرف سے بھی خوب جوابی کارروائی ہوئی حملے ہوتے رہے۔ یوں اسمبلی میں خوب چہل پہل ظر آئی۔ اب یہ دیکھ لیں گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں ب د پی ٹی آئی کے با ی ے موجودہ چیف جسٹس کے حوالے سے ایک بیا میں کہا کہ چیف جسٹس دب گ آدمی ہیں وہ ا صاف کریں گے۔ بس اس پر بھی خواجہ آصف کی رگ ظرافت پھڑکی اور ا ہوں ے فوراً بیا جاری کیا کہ اب تو قیدی آرمی چیف کو بھی دب گ سپہ سالار کہے گا
اب اس میں بھلا خواجہ کب چپ رہتے۔ ا ہوں ے ذومع ی جملہ کہہ کر بات کہہ دی مطلب یہی تھا کہ آج کل خود کو بے اختیار وزیر اعظم کہہ کر سارے معاملات اس وقت کے آرمی چیف کے سر ڈال ے والا کپتا اس وقت کے سپہ سالار کو بھی دب گ سپہ سالار اور چیف جسٹس کو دب گ جج کہتے تھے مگر اب ا سے جا چھڑا رہے ہیں
اب کچھ ئے کیس سام ے آ ے کے بعد دیکھ ا ہے کہ عدالت اڈیالہ جیل کے قیدی کے حوالے سے کیا فیصلے کرتی ہے۔ ابھی تک تو ا ہیں کافی رعایت مل ے پر ضما توں پر حکومت اور اس کے اتحادی کافی ج±ز ب±ز ہو رہے ہیں جس کا اظہار ا کے بیا ات سے بھی ہوتا ہے جو خاصے جلے کٹے ہوتے ہیں۔گرمی بڑھتے ہی ہسپتالوں میں گیسٹرو اور ڈائریا کے مریضوں کا رش
اس موسم میں گرمی کا توڑ کر ے کے لیے ہمارے ہاں ٹھ ڈے مشروبات کا استعمال عام ہے۔ سڑکوں ، بازاروں میں مضر صحت مشروبات فروخت کر ے والے بھی اقص اشیاءمثلاً برف کے گولے، دو مبر شربت اور بوتلیں فروخت کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پیٹ کے امراض بڑھ جاتے ہیں اور ہسپتالوں میں رش لگ جاتا ہے۔ کیا بچے کیا بڑے جس کو دیکھو پیٹ پکڑے ہائے ہائے کرتا ظر آتا ہے۔ زیادہ پریشا ی بچوں کی وجہ سے ہوتی ہے جو ڈائریا کا شکار ہو ے کی وجہ سے بہت لاغر ہو جاتے ہیں اور والدی بھی ا کی وجہ سے بہت پریشا ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر دو سے زیادہ مریض لیٹے ظر آتے ہیں۔ اس لیے اس موسم میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ باسی کھا ا اور گلے سڑے پھل، گ دا پا ی۔ اسے پی ے سے احتیاط ضروری ہے۔ مگر غریب لوگ کیا کریں ا ہیں فلٹر یا م رل پا ی کہاں دستیاب ہے۔ لکوں کا پا ی بیماریاں با ٹتا پھرتا ہے۔ باسی کھا ا ا کے صیب میں لکھا ہوا ہے۔ وہ د اور رات کو تازہ کھا ا پکا ے سے رہے ات ی ا میں سکت ہیں ہوتی۔ اس لیے کم از کم صاف پا ی اور وبائی امراض کے اس موسم میں حکومت ہسپتالوں ، طبی مراکز میں ادویات کا وافر ا تظام کرے تاکہ مریضوں کو ادویات دستیاب ہوں ، کم از کم اس طرح حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ لوگ بھی اقص اشیاءکے استعمال سے پرہیز کریں اور گرمی میں باہر کل ے سے گریز کریں۔ احتیاط اور پرہیز دوا سے کہیں زیادہ بہتر ہے

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...