جزا سزا کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا اور جزا سزا کا سارا سسٹم انصاف کی بنیاد پر چلتا ہے۔ ملک اور معاشرے تو دور کی بات ہے جن گھروں، اداروں میں انصاف نہیں ہوتا وہ گھر تباہ ہو جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم پورے ملک کا نظام انصاف جزا سزا کی بجائے خواہشات اور خود غرضی سے چلانا چاہتے ہیں۔ ہر طاقتور اپنی من مرضی کے لیے اصول ضابطوں کو توڑ موڑ کر سڑک پر پھینک دیتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہم مجموعی طور پر ہتھیار پھینک چکے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ دیکھتے ہیں اب کیا ہو گا۔ یہاں کوئی کسی کے خلاف کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہم خواہشات کی تکمیل کے لیے سمجھوتے کر لیتے ہیں اور سائیڈ افیکٹس کے خوف کے باعث سرنڈر کر جاتے ہیں۔ معاشرے کا کوئی شعبہ بھی اس بیماری کے جراثیم سے محفوظ نہیں رہا۔ چونکہ سیاستدانوں کے بارے ہر کوئی کھل کر بات کر لیتا ہے بظاہر قوم وملک کی سربراہی اور لیڈر شپ ان کے ہاتھ میں ہے تو سب سے زیادہ زیر بحث یہی طبقہ رہتا ہے۔ ہمارا نظام ہر معاملے کی خرابیوں کا ذمہ دار بھی سیاستدانوں کو ٹھراتا ہے۔
ہر چند سال بعد کچھ سیاستدانوں کو خرابیوں کا ذمہ دار ٹھرا کر ملک کے بیڑہ غرق کرنے کا الزام لگا کر ان کے خلاف باقاعدہ ایک ماحول بنا کر انھیں سزا دینے کا عزم کیا جاتا ہے اور کچھ کو نجات دہندہ ظاہر کرکے تمام مسائل کے حل کا پیشوا بنا دیا جاتا ہے۔ راندہ درگاہ کئے گئے سیاستدانوں کے خلاف پورے جوش وجذبہ کے ساتھ کارروائیوں کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ ریاست کے تمام وسائل اور مشینری ان کے خلاف ثبوت اکھٹے کرنے پر جت جاتی ہے اتنی دیر میں سمجھ آتی ہے کہ ان کوسزا دی گئی تو ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ پھر معافیوں اور سمجھوتوں کا دور چلتا ہے اور ری کنسیلئیشن کا ڈول ڈال کر انکے تمام مقدمات ختم کر کے پھر سے انھیں نجات دہندہ کے طور پر منظر عام پر لایا جاتا ہے اور اقتدار میں شریک لوگوں کی برائیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں اور یہ تاثر ملنا شروع ہو جاتا ہے کہ اگر انھیں فوری طور پر اقتدار سے علیحدہ نہ کیا گیا تو خدانخواستہ ملک باقی نہیں بچے گا۔ ریاست پھر نئے ٹارگٹ پر جت جاتی ہے۔ ہماری ساری مشینری ایک خانے میں پڑے ہوئے ڈبے کو دوسرے خانے میں رکھنے اور تین چار سال بعد اسی ڈبے کو اٹھا کر واپس اسی خانے میں رکھنے کے سوا کوئی کام نہیں کر رہی۔ ہم کسی سیاستدان کے خلاف آج تک کارروائی اس وجہ سے نہیں کر پائے کہ اس طرح ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے۔ جس کوایک دن دنیا جہان کی برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہوتا ہے اگلے دن اسے قوم کا ہیرو اور امیدوں کا مرکز ڈیکلیر کر دیا جاتا ہے۔ عام لوگ اس گورکھ دھندے میں اتنا کنفیوژ ہو چکے ہیں کہ ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کس وقت کون غلط اور کون صحیح ہے۔ لہذا آپ اطمینان رکھیں کہ اس ملک میں کسی سیاستدان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی ورنہ سسٹم قائم نہیں رہے گا۔
اب آتے ہیں نظام کی بنیاد فراہم کرنے والے شعبہ یعنی انصاف کی طرف۔ ججز تو بہت دور کی بات ہے اس ملک میں کسی وکیل کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر کسی وکیل کے خلاف کارروائی کی گئی تو عدالتی نظام ڈگمگا جائےگا اس لیے اس پر بھی سمجھوتے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہاں بھی ہمارا ہتھیار پھینکنا بنتا ہے۔ ملک کی بقا کے سب سے بڑے ضامنوں کے بارے میں تو بات کرتے ہوئے بھی پر جلتے ہیں کہ کہیں سکیورٹی کمپرومائز نہ ہو جائے۔ کرتا دھرتاوں کے بارے میں تو سوچنا بھی گناہ ہے لیکن ریٹائرڈ لوگوں بارے میں بھی کسی قسم کی کارروائی اس لیے نہیں ہو سکتی کہ اس سے مورال ڈاون ہوتا ہے۔ پولیس جو لوگوں کو مارتی بھی ہے اور ان سے چھینتی بھی ہے، اس کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سے فورس کا مورال ڈیمج ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے لہذا ان کا مورال ہائی رکھنے کے لیے ان کے جائز ناجائز ہتھکنڈے جاری رکھنے پر سمجھوتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ صحافی جو مرضی کریں اگر انھیں کسی اصول ضابطے میں لانے کی کوشش کی گئی تو آزادی صحافت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ دنیا میں جگ ہنسائی ہو گی اس لیے یہاں بھی سرنڈر کرنا بنتا ہے۔
اس ملک کا بزنس مین جو دل میں آئے کرے آپ اسکے خلاف کوئی کارروائی اس لیے نہیں کر سکتے کہ اس سے سرمایہ کاری کا ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے لہذا یہاں بھی کمپرومائز کرنا بنتا ہے۔ بجلی اور گیس چوروں کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں ہو سکتی کہ وہ انڈسٹری بند کر دیں گے۔ ٹرانسپورٹرز کو اس لیے کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ وہ ملک کا پہیہ جام کر دیں گے لہذا انھیں من مانی کرنے دی جائے۔ وہ فیول سستا ہونے کے باوجود اپنی مرضی کا کرایہ وصول کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور ریاستی مشینری بےبس ہے کیونکہ نظام چلانے کے لیے پہیہ چلتے رہنا ضروری ہے۔ غرضیکہ ہم سرکاری ملازم سے لے کر اساتذہ اور ڈاکٹرز کے خلاف بھی کارروائی نہیں کرسکتے کہ اگر انھوں نے ہڑتال کر دی تو نظام درہم برہم ہو جائے گا اس لیے انھیں بھی من مانی کاپورا حق ہے۔ اسی طرح تاجروں پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ کہیں شٹر ڈاون نہ کر دیں۔ آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی للہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ جب ان میں سے کوئی بڑا طاقتور جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک بااثر قبیلے کی خاتون کی چوری پر اسکے ہاتھ کاٹنے کی سزا دی تو فرمایا کہ خدا کی قسم اس عورت کی جگہ اگر میری بیٹی فاطمہ رضی للہ نے چوری کی ہوتی تو اس کو بھی یہی سزا دی جاتی۔ آپ اپنے معاشرے میں ادھر ادھر نظر دوڑائیں کیا اس معاشرے میں کہیں آپ کو کسی طاقتور کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی نظر آتی ہے؟۔ طاقتور بےشک قتل بھی کرلے وہ باعزت بری ہوجاتا ہے غریب بے شک کسی شک میں ناجائز ہی پکڑا جائے تو وہ ساری عمر جیلوں میں سڑتا رہتا ہے وہ اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکتا۔ معاشرے میں اس وقت تک بہتری نہیں آسکتی جب تک طاقتور طبقات کےخلاف کارروائی نہیں ہوتی۔جب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ جب تک امیر غریب کی تفریق سے بالاتر ہو کر ایک جیسا انصاف فراہم نہیں کیا جاتا اس وقت تک سمجھوتے ہوتے رہیں گے اور ملک بحرانوں کا شکار رہے گا۔ ملک میں اگر اخلاقی بحران پر قابو پا لیاجائے تو سیاسی، اقتصادی اور انتظامی بحران ازخود ختم ہو جائیں گے۔