”دروغ گوئی کے بلیک ہولز“

May 21, 2024

محمد دلاور چودھری

قیام پاکستان کے 9 برس بعد کی بات ہے مصر کے صدر ناصر نے نہر سویز کو قومیانے کا اعلان کر دیا اسرائیل نے مخالفت کی اور مصر سے جنگ شروع کر دی۔ برطانیہ، فرانس اسرائیل کی مدد کو آ گئے، کچھ عرب حلیف جمال ناصر کے ساتھ بھی تھے اس وقت پاکستان کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی تھے۔ انہوں نے مصر اور ان کے اتحادیوں کی فوج کو صفر جمع صفر کہہ دیا، اس تہلکہ خیز بیان پر ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ ادھر امریکہ اور سوویت یونین نے مصر کے حامی بن کر پانسہ پلٹ دیا۔ ملک کے اندر خبر ابھی پوری طرح نہیں پہنچی تھی، لوگ دیوانہ وار مظاہرے کرتے ہوئے وزیراعظم ہاو¿س کو گھیرنے آ گئے۔ سہروردی کو خبر ہوئی تو وہ بھی پہنچ گئے۔ لوگوں نے ان کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ اس پر سہروردی نے خطاب شروع کر دیا انہوں نے کہا ”سنو تو سہی میرے صفر+ صفر کی فوجوں نے دشمن کے چھکے چھڑا دیئے ہیں اور جنگ جیت لی ہے۔ یہ سننا تھا کہ وہاں موجود ہجوم جذبات سے مغلوب ہوکر ایک دم حسین سہروردی زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا منتشر ہو گیا۔ 
ہمارے جذباتی اور منافقانہ رویوں کی وجہ سے ملک کے وجود میں آنے سے لیکر اب تک ارباب اختیار اور عوام کے درمیان حقیقت سے دور اور دروغ گوئی کے قریب والے طرز عمل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ایمبولینس کیسے خراب ہوئی، لیاقت علی خان کو کس نے شہید کیا، دو سینئر جرنیل فضائی حادثے کا شکار کیسے ہوئے؟مشرقی پاکستان دیکھتے ہی دیکھتے بنگلہ دیش کیوں بن گیا۔ بھٹو نے خود آئین بناکر اس میں فوراً ہی بہت سی ترامیم کیوں کر دیں، نیشنلائزیشن نے کیا نقصانات کئے، 90 روز میں الیکشن کا جھوٹا وعدہ کرکے اقتدار کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے ضیاءالحق طیارہ حادثے کا شکار کیوں ہو گئے ان اور ان کے بعد کے تمام اہم قومی واقعات پر ایک ڈراونی دھند چھائی ہوئی ہے یہ سب واقعات ایک ایسا بلیک ہول ہیں جن سے حقیقت کی ایک کرن بھی کبھی باہر نہیں آ سکی بلکہ یہ سچ اور حقیقتیں پس دیوار زنداں سرپٹخ پٹخ کر خاموش ہو چکی ہیں۔ وقت کے دھارے پر ذہن کی آنکھیں بند کئے بہتے چلے تو جا رہے ہیں کہ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کس طرف جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں۔ اور یہ کہ جس طرف ہم بڑھے چلے جا رہے ہیں وہ مقام حقائق سے دور دروغ گوئیوں کے ایسے بلیک ہولز پر بنے ہوئے ہیں جہاں سے کسی کا واپس آنا تو کجا اس کے بارے میں کبھی سنا جانا بھی محال ہے۔ 
حقیقتوں کی مستقل مزاجیاں چھوڑ کر ہم اپنی بنیادیں جھوٹ اور ڈنگ ٹپاو¿ کاموں میں اس قدر مضبوطی سے رکھتے چلے جا رہے ہیں کہ ”دیکھنے والے بھی ہاتھ ملتے ہیں“۔ مجھے اپنے اس قومی سفر کا احوال دیکھ کر پاکستان کے ایک ریڈیو سٹیشن پر پیش آنے والا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے جب سب کچھ ”لائیو“ ہوا کرتا تھا۔ ایک پروگرام 8 بجکر 27 منٹ پر ختم ہو گیا تو ڈنگ ٹپاو¿ ذہنوں نے فوری طور پر ایک معروف ستار نواز کو 3 منٹ تک اپنے فن کے مظاہرے کی درخواست کر دی، استاد جی ستار بجاکر فارغ ہوئے تو موسیقی کے کسی دلدادہ نے تعریف کرتے ہوئے پوچھا واہ.... استاد جی کیا بجا رہے تھے۔ اس پر استاد جی صاف گوئی سے بولے جناب میں ساڑھے آٹھ بجا رہا تھا....
 ہمارے ہاں آنے والی ہر حکومت نے بھی پائیدار ملکی ترقی کیلئے طویل المیعاد اچھی پالیسیاں بنانے کی بجائے اپنے اپنے حصے کا ستار ہی بجایا ہے۔ اگر کسی نے ستار بجانے کا دورانیہ 3 منٹ سے زیادہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے تو کسی زور آور نے ٹھیک ٹھیک نشانہ لگا کر ستار ہی توڑ ڈالا ہے۔ 
واقعات کے اس گھناو¿نے تسلسل کے باعث ملک نازک دور سے باہر ہی نہیں آ رہا اور بار بار کوئی نہ کوئی اسے بچانے کے نام پر آ دھمکتا جاتا ہے۔ وطن عزیز ادارہ جاتی اور معاشرتی تباہی کی ایک ایسی ڈراو¿نی دھند میں لپٹ کر رہ گیا ہے کہ اب تو قریب کی چیزیں بھی ٹھیک طرح سے دکھائی نہیں دیتیں۔ اور اسے درست حالت میں دیکھنے کی خواہش کرنے والے جارج آر ویل کے ناول اینمل فارم کے کرداروں کی طرح آنکھیں مل مل کر دیکھنے کے باوجود دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی کے مصداق ایک گوشے میں حیران و پریشان کھڑے ہیں۔ لاقانونیت کا ایک جال ہے کہ ہر طرف پھیلا ہے۔ عوام امن و امان قائم کرنے کے مراکز یعنی تھانوں کا رخ کرتے ہیں تو ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ“ کی طرح وہاں ریلیف ملنے کی بجائے بقول فیض
پَولے کھاندیں وار نہ آو¿ندی اے
شکایت کیلئے بڑے صاحب کے پاس جائیں تو وہ عوام کو ڈاکوو¿ں سے ہنسی خوشی لٹنے کی تلقین کر کے اسمبلی ہالوں اور ارباب اختیار کی حفاظت جیسے خطر ناک کام کیلئے گئے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے گھنٹوں کی اس محنت مشقت کے بعد وہ چند ساعتیں آرام کرنے کیلئے وہاں سے گھر نہ جائیں تو پھر کہاں جائیں۔ سرکاری ہسپتالوں کا رخ کر لیں تو ”موت منہ کھولے جاگ رہی ہوتی ہے“ اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں قدم رنجہ کریں تو اپنے گھر کی رجسٹری کم از کم ساتھ لے جانا پڑتی ہے کہ جانے کب موت آ دبوچے اور اپنی میت واگزار کرانے کیلئے یہ حقیر رجسٹری کام آ سکے۔ عدالتوں کی طرف جائیں تو زیرالتواءلاکھوں مقدمات کا ڈھیر منتظر ہوتا ہے کہ وہاں صرف آئینی وسیاسی نوعیت کے کیسس ہی پہلی صف میں جگہ پاتے ہیں۔ یعنی ”انسان وہاں بھی گونگے ہیں“ تعلیمی اداروں کی خاک چھاننے کی ٹھان لیں تو زنگ آلود ازکار رفتہ ماحول آپ کا استقبال کرتا ہے۔ پھر تعلیم اتنی مہنگی کہ زیادہ تر تو اس کے ”ت“ پر اکتفا کرتے ہوئے ”علمو بس کریں او یار“ کا راگ الاپنا پڑتا ہے۔ یہ سارے دریا پار کر کے آگے بڑھ ہی جائیں تو نوکریاں ملنا محال .... میرٹ کی دھجیاں اس طرح اڑائی جا رہی ہوتی ہیں جس طرح ٹیکسوں پر ٹیکس لگا کر عوام کی اڑائی جا رہی ہوتی ہیں۔
معاشرتی بندھن دھڑا دھڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ایک مہذب معاشرے کا تصور گدھے کے سر پر سینگ نہیں بلکہ پورے گدھے سمیت غائب ہورہا ہے۔ 
یہ تو احوال ارباب اختیار اور اداروں کا ہے۔ لیکن میڈیا اور عام آدمی بھی اس سارے عمل میں اپنے اپنے مفادات کی بانسری بجانے میں مگن ہے۔ میڈیا پر من پسند موضوعات اور ”بڑوں“ کی تعریفوں کی بھرمار ہے تو عام آدمی ملاوٹ کرنے‘ اصل قیمت سے زیادہ وصولیاں کرنے، جعلی ادویات بنانے کم تولنے، جبکہ ہزاروں تاجر کروڑوں ماہانہ کما کر چند ہزار سالانہ ٹیکس بھی نہ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ دفاتر میں کام کے سوا سب کچھ ہو رہا ہے، ہر طرف اگر کسی مقابلے کی دوڑ لگی ہے تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا مقابلہ ہے۔ہم سب حصہ بقدر جثہ یہ سب کرنے کے بعد رو رو کر امت اور قوم کی بھلائی اور اپنی بخشش کی دعائیں مانگنے میں لگے ہیں۔ 
کتنے معصوم ہیں ہم جو یہ سمجھتے ہیں کہ دروغ گوئی کے یہ بلیک ہولز جو ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ ہمارے گڑ گڑا کر دعائیں مانگنے سے رحمتوں کے بادلوں میں بدل جائیں گے۔ واقعی ہم بہت ہی معصوم ہیں ورنہ جس شاخ پر ہمارا آشیانہ ہے کم از کم اسے تو نہ کاٹتے۔

مزیدخبریں