گذشتہ دنوں 19 مئی کو خطے کے اہم ملک ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر دیزمر جنگلات کے اوپر سے گزر رہا تھا کہ خراب موسی صورتحال کے باعث ہیلی کاپٹر کریش ہو گیا۔حادثہ ضلع اْوزی اور پیر داؤد قصبے کیدرمیانی علاقے میں پیش آیا۔ ہیلی کاپٹر میں ایرانی صدر کے ساتھ ایرانی وزیر خارجہ اور مشرقی صوبہ آذربائیجان کے گورنر بھی سوار تھے۔ حادثے کے بعد ہیلی کاپٹر کا ملبہ تلاش کرنا ایک بڑا مسئلہ بنا جس کے لیے کئی ممالک نے سرچ آپریشن کے لیے ایران کو اپنی اپنی خدمات کی پیشکش بھی کی۔ بالآخر ترکیہ کا ڈرون طیارہ ہیلی کاپٹر کی باقیات تلاش کرنے میں کامیاب ہوا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پرواز کے آدھے گھنٹے بعدصدارتی ہیلی کاپٹر کا دیگر 2 ہیلی کاپٹروں سے رابطہ منقطع ہوا۔
ابراہیم رئیسی جو سخت گیر اور قدامت پسندی کے لحاظ سے جانے جاتے تھے 2021 میں ایران کے صدر بنے۔ 14 دسمبر 1960 کو ایران کے شہر مشہد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے ابراہیم رء?سی اسلامی قانون دان اور مصنف بھی تھے۔20 سال کی عمر میں ہی وہ ایران کے عدالتی نظام کا حصہ بن گئے۔
کرج شہر کے پراسیکیوٹر نامزد ہونے سے لے کر ہمدان اور پھر تہران کے پراسیکیوٹر جنرل بنے، وہاں سے جوڈیشل اتھارٹی کے نائب سربراہ اور پھر 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہوئے۔1988 میں ابراہیم رئیسی اْس پراسیکیوشن کمیٹی کا حصہ تھے جس نے ملک بھر میں بے شمار سیاسی قیدیوں کو سزائے موت سنائی۔2021 اقتدار کے ایک سال بعد ہی ابراہیم رئیسی کی حکومت کو 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔خارجہ پالیسی میں ابراہیم رئیسی علاقائی خودمختاری کے حامی مانے جاتے تھے، امریکی افواج کے انخلا کے بعد انہوں نے افغانستان میں استحکام کی حمایت کی اور کہا کہ افغان سرحد کے اطراف داعش جیسے کسی بھی دہشت گرد گروپ کو پیر جمانے نہیں دیا جائے گا۔جب رئیسی نے اقتدار سنبھالا ایران معاشی ومعاشرتی بحران کا شکار تھا۔ اپنے آپ کو بدعنوانی سے لڑنے والے غریبوں کے رہنما کے طور پر پیش کرنے کے بعد، رئیسی نے کفایت شعاری کے اقدامات کا اعلان کیا جس کی وجہ سے کچھ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مہنگائی کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوا۔اس کے بعد، 2022 کے ا?خر میں، خواتین کے لباس کے لیے ایران کے سخت اسلامی ضابطے کی مبینہ طور پر خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ایران اور سعودی عرب کی پرانی کشیدگی مارچ 2023 میں ایک تاریخی تقریب میں ختم ہوئی جب ایران اور سعودی عرب نے ایک حیرت انگیز معاہدے کا اعلان کیا جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔
اسلامی انقلاب کے بعد فلسطینیوں کی حمایت ایران کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ
اکتوبر 2023 میں جب اسرائیل نے فلسطین پر حملہ کیا تب بھی ایران حماس کی بھرپور حمایت کے طور پر سامنے آیا۔اسی نتیجے میں یکم اپریل 2024 کو دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر اسرائیل نے فضائی بمباری کی۔حملے میں ایک اعلیٰ ایرانی جنرل اور 6 دیگر ایرانی فوجی افسران ہلاک ہوگئے تھے۔ جس کے جواب میں ایران نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے علاوہ دفاعی تنصیبات اور گولان کی پہاڑیوں پر فوجی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا جبکہ 300 سے زائد بیلسٹک میزائل داغے۔ ایرانی میڈیا کا دعویٰ تھا کہ تہران اسرائیل میں 50 فیصد اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا۔ اس کے بعد اسرائیل نے دوبارہ اصفہان کے فوجی اڈوں پر محدود ڈرون حملے کیے جنہیں ایرانی دفاعی نظام نے فضا میں ہی تباہ کر دیا۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ کئی برسوں کے دوران خفیہ ا?پریشنز اور سائبر حملوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ تاہم رواں برس اپریل میں پہلی مرتبہ دونوں حریف ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف براہِ راست اپنی عسکری قوت کا استعمال کیا تھا۔
اب محض ایک ماہ بعد ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے کی خبر سامنے ا?تے ہی سوشل میڈیا پر یہ خبریں زیر گردش ہیں کہ اس حادثے کے پیچھے اسرائیلی خفیہ ایجنسی’موساد‘ کا ہاتھ ہے۔کیونکہ اسرائیل نے گزرے برسوں میں متعدد بار ایران کے سینئر عسکری حکام اور جوہری سائنس دانوں کو خفیہ کارروائیوں میں نشانہ بنایا ہے۔
البتہ اس حوالے سے اسرائیل کی جانب سے وضاحتی بیان آیا۔غیرملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے رپورٹ کیا جس میں کہا گیا کہ ’تل ابیب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کا ذمہ دار نہیں ہے اور وہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ملوث نہیں ہے‘۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات کی بات کریں تو ابراہیم رئیسی کے دور میں ایران اور پاکستان کی سرحد پر کئی مرتبہ کشیدگی دیکھنے میں آئی۔گذشتہ ماہ ابراہیم رئیسی جب پاکستان کے تین روزہ دورے پرآئے تو یہ وہ وقت تھا جب دو ماہ قبل پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد پر ایک دوسرے کے خلاف حملے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے ایران نے 16 جنوری کو پاکستانی علاقے کے اندر میزائل حملے کر کے مبینہ طور پر جیش العدل نامی ایک تنظیم کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ کیونکہ 15 دسمبر 2023 کو جیش العدل کے ایک مبینہ حملے میں ایرانی شہر رسک میں 11 پولیس اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اس کے بعد دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی اور اسی تناظر میں صدر رئیسی نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو ان کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ ایرانی صدر اس دورے کے دوران لاہور اور کراچی بھی گئے تھے۔ ان کے دورے پر ایک روزہ چھٹی کا اعلان بھی کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر کے انتقال پر وزیراعظم پاکستان کی جانب سے جاری پیغام میں ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کا ذکر بھی ملتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے تعزیتی پیغام میں جہاں گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا وہیں ابراہیم رئیسی مرحوم کے ایک ماہ قبل دورہ پاکستان کو تاریخی قرار دیا۔ جبکہ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا کہ پچھلے ماہ ہمیں پاکستان میں ان کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا، ہماری گفتگو کے دوران، میں نے انہیں دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے پرعزم پایا، آغا رئیسی ہمیشہ پاکستان اور اسکے عوام کو خاص مقام دیتے،ان کا انتقال نہ صرف ایران بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔
ایرانی صدر کے انتقال پر پاکستان میں ایک روزہ سوگ منایا گیا۔
ابراہیم رئیسی کی حادثاتی موت کا خطے پر کیا اثر ہوگا اب یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں جاری تناو? کے ماحول میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کے حادثے جیسا کوئی غیر معمولی واقعہ ا?ئندہ غیر متوقع صورتِ حال کا باعث بھی بن سکتا ہے۔اگلا صدر کون ہوگا تو ایرانی آئین کے مطابق صدر کے انتقال کے بعد 50 دن کے اندر صدارتی انتخابات کروائے جائیں گے۔ عہدہ خالی رہنے تک نائب صدر محمد مخبر صدارتی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔68 سالہ محمد مخبر ابراہیم رئیسی کی طرح سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔