سال2024پاکستان کی تاریخ میں سانحہ گندم کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس میں کروڑوں کاشتکاروں کا معاشی قتل ہی نہیں ہوا دنیا بھر میں حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب نے کسانوں کی بے توقیری کی اور کسانوں کی تضحیک کرکے ان کی گندم اجناس کو دھتکار دیا۔ حکومتی سطح پر کسانوں کوپہلے گندم کی پیداوار بڑھانے کیلئے کہا گیا جب گندم کی پہلے سے زیادہ رقبے پر کاشت سے بمپر پیداوار ہو گئی تو گندم آٹا اور کمیشن مافیا نے کسانوں کی محنت پر کاری وار کروایا آج گندم اور کسان ثکے ٹوکری ہوگئے ہیں۔ مافیا کے وارے نیارے ہو گئے گندم درآمد سکینڈل پر وزیراعظم نے پرجوش انداز میں کہا کہ گندم درآمد کرکے بڑا ظلم کیا گیا کسی کو نہیں چھوڑیں گے ذمہ داران کو بے نقاب کریں گے۔ جس پر سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کہہ چکے ہیں کہ میں نے پی ڈی ایم حکومت کی گندم درآمد کرنے کی سمری کی منظوری پر گندم درآمد کرنے کی اجازت دی،اس بیان کے سامنے آنے کے بعد گندم سیکنڈل تحقیقاتی کمیٹی لاپتہ سے ہوگئی ہے ۔رپورٹ کے مطابق ملک میں گندم درآمد سکینڈل تحقیقات کیلئے قائم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کوئی پیشرفت نہیں ہوئی نہ ذمّہ داروں کا تعین ہوسکا اور متعلقہ اداروں نے چپ سادھ لی ہے۔ حکومت پنجاب نے کسانوں سے گندم خریدنے سے صاف انکار کرکے احسان فراموشی کا ریکارڈ اپنے نام کیا ہے جبکہ کے پی حکومت پنجاب سے گندم خرید رہی ہے اسی طرح 400ارب روپے کا حکومت پنجاب کی جانب سے کسان کارڈ کا چرچا کیا جارہا ہے لیکن ابھی تک اس کی تفصیلات کسی کومعلوم نہیں یہ کس قسم کا کارڈ ہے 12ایکٹر سے کم زرعی زمین رکھنے والے کسان کارڈ کے اہل ہونگے اس منصوبے کیلئے 12رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے سربراہ چیف سیکرٹری پنجاب ہونگے اس منصوبے کے تحت کسانوں کو بیج کھادوں کیلئے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ روپے کابلا سود قرضے دیا جائے گا تاکہ کسانوں کو مڈل مین سے چھٹکارا حاصل ہو سکے ابھی تک اس کسان کارڈ کی یہ تفصیل بھی سامنے نہیں آ سکی کہ ڈیڑھ لاکھ روپے کسان کو کتنے رقبے پر ملے گا یا فی ایکڑ کتنی قرض کی رقم ملے گی فی الحال تو کسانوں کو بلا سود قرضے دینے کا کہا جا رہا ہے اس کی تفصیلات تو بعد میں پتہ چلیں گی کہ اس میں کتنی حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کسان کارڈ دراصل قرض کارڈ ہے اور کسانوں کو مزید قرض میں جکڑنے کا منصوبہ ہے۔ اور یہ بھی المیہ ہے حکومت پنجاب کسانوں سے آئندہ گندم نہیں خریدے گی بلکہ یہ کام مڈل مین گندم اور دیگر مافیا کرے گی اسے کہتے ہیں نیا جال لائے پرانے شکاری۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم کی اپیل پر جماعت اسلامی اور کسان بورڈ پاکستان کے تحت 16مئی کو لاہور میں مسجد شہداء سے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک کسان مارچ ہوا شدید گرمی کے باوجود اس کسان مارچ میں ہزاروں کسانوں نے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ صدر کسان بورڈ پاکستان سردار ظفر حسین امیر جماعت اسلامی وسطی پنجاب جاوید قصوری امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب راؤ محمد ظفر جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی وسطی پنجاب نصراللہ گورایہ امیر جماعت اسلامی حلقہ لاہور ضیاء الدین انصاری کسان بورڈ پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد الجبار کسان بورڈوسطی پنجاب کے صدر میاں رشید منہالہ اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔کسان مارچ سے ایک روز قبل پنجاب حکومت کی ایما پر پولیس نے جماعت اسلامی اور کسان بورڈ کی قیادت سمیت پنجاب بھر کے مختلف اضلاع سے کسان بورڈکے رہنماؤں اورکارکنوں کو گرفتار کیا گیا لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی اور کسان بورڈ کے کارکنان اور کسانوں کی بہت بڑی تعدادمال روڈ کے راستے وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچنے میں کامیاب رہی۔ جہاں سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم نے ان کا استقبال کیا ۔مارچ میں امیر جماعت اسلامی ضلع گجرات انصر دھول امیر ضلع شیخوپورہ رانا تحفہ دستگیر امیر جماعت اسلامی بہاولنگر ولید ناصر چوہدری امیر جماعت اسلامی لیہ مبشر نعیم چوہدری عامر نثار خان پریم یونین پاکستان کے صدر شیخ محمد انور و دیگر رہنما موجود تھے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر ہزاروں پرجوش کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ملک میں مافیا کسانوں کا استحصال کر رہا ہے وقت آگیا ہے کہ خون چوسنے والوں سے اس ملک کو آزادی دلائی جائے گندم امپورٹ کرنے والوں سے حساب لیں گے ۔ جماعت اسلامی کسانوں کو ان کا حق دلاکر رہے گی ۔جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ درست کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جاری سیزن کی گندم خریداری نہ کرکے قومی جرم اور زراعت دشمنی کی ہے جس سے کسان تو برباد ہوا لیکن آئندہ مراحل میں چاول اور گنا کی کاشت بری طرح متاثر ہوگی۔