صحافی کی بنیادی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے غالب کی بیان کردہ ’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘ والی بے اعتنائی میسر نہیں ہوتی۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی اہم واقعہ ہوجائے تو اس کے بارے میں جلد از جلد سب کچھ جان لینے کی تڑپ جان کھپادیتی ہے۔ حقائق کی تلاش تک خود کو محدود رکھنے کے بجائے اہم واقعہ کے ممکنہ مضمرات بھی اندیشہ ہائے دور دراز کی صورت اختیار کرتے ہوئے قطار اندرقطار نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اتوار کی شام سے میں ایسی ہی پریشانی میں مبتلا ہوں۔
گزشتہ کئی برسوں سے ’’تازہ ترین‘‘ خبرجاننے کیلئے سوشل میڈیا کے ان دنوں ’’ایکس(X)‘‘ اور پہلے ٹویٹر کہلاتے پلیٹ فارم پر کامل انحصار علت کی طرح فطرت کا حصہ بن چکا ہے۔ چند ماہ سے مگر ہمارے اذہان کو ’’مفسد‘‘ شکوک وشبہات سے محفوظ رکھنے کے لئے مائی باپ سرکار نے مذکورہ پلیٹ فارم تک رسائی کو تقریباََ ناممکن بنارکھا ہے۔ ٹیکنالوجی اور جدید ایجادات کے خلاف جنگ مگر جیتی نہیں جاسکتی۔ سنا ہے کہ وی پی این(VPN)نامی کوئی ترکیب ہے جس کے ذریعے آپ حکومتوں کی مسلط کردہ سنسر شپ کو غچہ دے کر اپنے پسند کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک پہنچ سکتے ہیں۔ٹویٹر پر انحصار کی علت سے مجبور ہوکر میں نے کئی بار مذکورہ ترکیب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمپیوٹر کے اسرارورموز سے نآشنائی نے مگراس ضمن میں بکری ہونے کو مجبور کردیا۔
بہرحال اتوار کی شام واٹس ایپ کے ذریعے بیرون ملک مقیم ایک دوست نے اطلاع دی کہ ایران کے صدر کا ہیلی کاپٹر ’’لاپتہ‘‘ ہوگیا ہے۔ جس وقت یہ پیغام آیا میں گھر سے باہر تھا۔ یہ خبر ملتے ہی گھر کی جانب تیزی سے روانہ ہوگیا۔ گھر پہنچتے ہی ٹی وی آن کیا اور ریموٹ پکڑکر مقامی اور عالمی چینلوں کو ٹٹولنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی لیپ ٹاپ بھی کھول لیا۔ ٹویٹر کی عدم دستیابی نے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلوں تک براہ راست رسائی کے حصول کو اکسایا۔ تین گھنٹوں کی چھان بین کے باوجود ٹھوس معلومات کے حوالے سے خود کولق ودق صحرا میں محصور محسوس کیا۔
ایرانی صدر کو درپیش آئے حادثے کی خبرملنے کے بعد جو بے چینی لاحق رہی اس سے تنگ آکر خود کی ملامت شروع کردی۔ جی کو سمجھایا کہ بھائی تم پاکستان یا ایران کے اہم ترین فیصلہ سازوں میں شامل نہیں۔ پیشہ ورانہ طورپر ایران میں ہوئے حادثے کے بارے میں تفصیلات کسی اخبار یا ٹی وی چینل کو فراہم کرنے کے پابند بھی نہیں۔ بے چینی پر قابو پائواور دھیان کسی اور جانب لگانے کی کوشش کرو۔ دریں اثناء خوش قسمتی سے ایک مہربان دوست کا فون آگیا۔ میری فراغت کی تصدیق کے بعد تشریف لائے اور مجھے چٹ پٹی مٹن کڑاہی کھلانے اپنے ہمراہ لے گئے۔ ان کے ساتھ گپیں لگاتے ہوئے بھی لیکن وقتاََ فوقتاََ ذہن میں ایرانی صدر کو درپیش آئے حادثے کے بارے میں فکرمندی کے جھٹکے محسوس ہوتے رہے۔
کھانے کے بعد گھر لوٹا تو بے چینی نے دوبارہ دل ودماغ کا کچومر نکال دیا۔ میری فکر مندی کا حقیقی سبب عالمی امور میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی ہے۔ اس دلچسپی سے اْکتاکر اکثر بلھے شاہ کی ’’علموں بس کریں اویار‘‘ والی تمنا کی افادیت جاں لیتا ہوں۔ بہرحال ضرورت سے زیادہ معلومات کی وجہ سے ذہن پر چھائی ’’بدہضمی‘‘ نے فکر مند بنیادی طورپر اس لئے کیا کہ ایران ان دنوں اسرائیل کیساتھ تقریباََ حالت جنگ میں ہے۔ اسرائیل نے ایران کے کئی ایٹمی ماہرین کو قتل کیا ہے۔ آخری قتل سنسنی خیزی کی حد تک حیران کن تھا جب ایک معروف سائنسدان کو ایران میں ایک شاہراہ پر نگاہ رکھنے والی خود کار بندوق کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ سائنس دانوں کے علاوہ اسرائیل اکثر ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق اداروں کے کمپیوٹر نظام میں نقب لگاکر جاسوسی کے علاوہ انہیں ناکارہ بنانے کی کاوشوں میں بھی مصروف رہتا ہے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کے علاوہ اسرائیل ان فوجی حکام پر بھی کڑی نگاہ رکھتا ہے جو اس کی دانست میں شام کے ذریعے لبنان کی حزب اللہ کو جدید ترین ہتھیار فراہم کرنے میں ملوث شمار ہوتے ہیں۔ مذکورہ تناظر میں چند روز قبل اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایک عمارت کودورمار میزائلوں کے ذریعے تباہ کردیا۔ اس کا حساب برابر کرنے کیلئے ایران نے تاریخ میں پہلی بار اسرائیل پر دور مار میزائلوں کی بارش برسادی۔ اس کی وجہ سے جانی نقصان تو نہیں ہوا۔ ایران نے مگر اسرائیل ا ور دنیا کے روبرو یہ ثابت کردیا کہ اس کے میزائل اب صیہونی ریاست کے کسی بھی مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔
مذکورہ واقعہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے وسوسوں بھرے ذہن میں بارہا یہ خیال آیا کہ ایرانی صدر کو درپیش آیا ’’حادثہ‘‘ اسرائیلی واردات بھی ہوسکتی ہے۔ خدانخواستہ میرا خدشہ درست ثابت ہوتا تو مجھے اور آپ کو ایک تباہ کن جنگ کے مضمرات بھگتنے کو تیار ہونا پڑتا۔ میری بے چینی اور وسوسوں کے برعکس ایرانی قیادت نے نہایت بردباری کا مظاہر ہ کیا۔ لیپ ٹاپ کی بدولت جن ایرانی ذرائع ابلاغ تک میں پہنچ سکا وہ ایرانی صدر کے ساتھ ہوئے واقعہ کو ’’حادثہ‘‘ ہی ٹھہراتے رہے۔ ان کی وساطت سے خبر یہ بھی ملی کہ ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر ایسے علاقے سے گزررہا تھا جو طوفان کی زد میں تھا۔ ایران کے روحانی رہ نما نے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی طلب کرلیا جو اس بات کی علامت تھی کہ ریاست کو کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نبردآزما ہونے کیلئے تیار کیا جارہا ہے۔
ایرانی حکومت کے اپنائے صبروتحمل کے باوجود ساری رات بے چینی سے مغلوب رہا۔ صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے سے قبل دو سے زیادہ گھنٹوں تک عالمی اور مقامی چینلوں سے تازہ ترین معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تشفی بخش جوابات نہیں مل پائے ہیں۔ یہ سوچ مگر اب اطمینان دلارہی ہے کہ ایران کی ریاست وحکومت اپنے صدر کے ہیلی کاپٹر کے لاپتہ ہوجانے کو ’’حادثہ‘‘ہی تصور کررہی ہے۔ اسرائیل یا کسی اور ملک کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرارہی۔ سوشل میڈیا پر اگرچہ سازشی تھیوریاں گھڑنے والوں نے یہ کہتے ہوئے وسوسوں کو بھڑکانا شروع کردیا ہے کہ حادثے سے قبل ایرانی صدر کی آذر بائیجان کے صدر سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے بعد پریس سے خطاب کرتے ہوئے آذربائیجان کے صدر نے طنزاََ یہ فقرہ ادا کیا کہ ان کی ایرانی صدر سے ملاقات ’’کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئے گی‘‘۔ تفصیلات کسی اور دن۔فی الوقت محض یاددلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایران اور آذربائیجان کے باہمی تعلقات نہایت کشیدہ رہے ہیں۔تاریخی اعتبارسے انتہا پسند ایرانی قوم پرست آذربائیجان کو ’’عظیم تر ایران‘‘ کا حصہ شمار کرتے ہیں۔ تاریخی آذربائیجان کا ایک بڑا رقبہ ان دنوں بھی ایران میں شامل ہے۔ تاریخی تنازعات کے تناظر میں ایرانی صدر کی آذربائیجان کے صدر سے ملاقات ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں خوشگوار اور امید بھرا باب کھول سکتی تھی۔ اس کے امکانات مگر ایرانی صدر کو درپیش آئے حادثے نے فی الحال موخر کردئے ہیں۔
ایرانی صدر کو حادثہ اور ذہن میں اٹھتے وسوسے۔
May 21, 2024