باتیں ان کی یاد رہیں گی

Khalidbehzad@gmail.com
گزشتہ دنوں نامور ادیب، ڈرامہ نگار، ناول نگار، صحافی اور کالم نگار (انگلش) اصغر بٹ دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ وہ معروف صاحبِ طرز ادیبہ، ناول نگار اور سوانح نگار نثار عزیز بٹ کے رفیق حیات تھے۔ تھیٹر اور ریڈیائی ڈرامے کو مقبولیت کی معراج تک پہنچانے کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اصغر بٹ (مرحوم) کی فنی زندگی کے بہت سے ڈائی مینشن تھے اور ایک اچھے تخلیق کار کی جملہ خوبیاں ان کی شاندار اور گریس فل شخصیت کا حصہ تھی۔ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ ادیبوں میں اتنے خوبصورت لوگ کم ہی ہوا کرتے ہیں اور یہ خوبصورتی محض ظاہری نہ تھی جو ان سے ملتا ان کے حُسن اخلاق، خلوص، خوش لباسی، خوش تکلم اور مقناطیسی شخصیت کا گرویدہ ہو جاتا۔ ان کا من بھی ان کے سرخ سپید تن کی طرح اُجلا تھا۔ ان کے ڈراموں اور ناول کو دیکھتے ہوئے قاری پریہ بات بہت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ایک عمدہ ماہرِ نفسیات بھی تھے جو اپنے انواع و اقسام کے کرداروں کی شخصیت اور نفسیات سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ ان کی اہلیہ محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ نے جس خاموشی اور وضعداری کے ساتھ ادب کی خدمت کی اس کا اعتراف تو ادب کی تمام سر کردہ شخصیات نے بلا تامل کیا ہے۔ ادب کی یہ آبشار اور جھرنا فن کی بل کھاتی پگڈنڈیوں پر ایک خوش رنگ آہنگ، ترنم، سلیقے اور شائستگی کے ساتھ رواں دواں تھا کہ فنا کی موج کے بے رحم تھپیڑوں نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ اس صدمہ¿ جانکاہ پر معروف شاعرہ ادا جعفری کا شعر بطور پرسہ محترمہ نثار عزیز بٹ کی نذر ہے:
کچھ سوچ کے کہنا ہے ہمیں حرفِ تسلی
تازہ ہو اگر زخم تو پیکاں سا لگے ہے
اصغر بٹ کی رحلت پر ان کے دیرینہ دوستوں اور معروف ڈرامہ نگاروں اور ان سے کام سیکھنے والے احباب کے جذبات نذر قارئین ہیں۔
افتخار عارف
 میں نے 1965ءمیں ریڈیو پاکستان کراچی سے زندگی کے عملی سفر کا آغاز کیا ان دنوں چند لوگوں کے نام خاندان کے بزرگوں کی طرح دوران گفتگو مسلسل گردش میں رہتے تھے۔ ان میں ذوالفقار علی بخاری، حمید نسیم، رشید احمد، ظفر حسین، حفیظ ہوشیارپوری، مولانا چراغ حسن حسرت اور دیگر مشاہیر ادب و فن ان میں سے بعض کو ہم نے دیکھا بعض کی محض باتیں ہی سنیں۔ پرانے ڈرامہ نگاروں میں سید امتیاز علی تاج، انتصار حسین، انتظار حسین، ابوسعید قریشی، ریاض فرشوری، نصیر انور کے ساتھ ایک نام جو بہت سننے میں آتا تھا وہ اصغر بٹ مرحوم کا تھا میں نے بہت دنوں تک انہیں دیکھا نہیں تھا صرف ان کی تحریریں دیکھی تھیں اور ان کے ڈرامے سنے تھے۔ بعد ازاں جب پاکستان ٹی وی کے سبب کراچی سے وابستہ ہوا تو مجھے 1967ءمیں پہلی بار ان سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔
وہ ایک نہایت خوبصورت، وجیہہ، خوش لباس، خوش گفتار اور اعلیٰ عہدے پر فائز رہنے کے باوجود نرم خو تھے اور ان کی یہ خوبی اچھی لگی، انہیں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ وہ بہت ہی صاحب مطالعہ آدمی تھے، چھوٹے چھوٹے خوبصورت جملے لکھتے، وہ جدید ڈرامے کی تمام تکنیکی ضرورتوں اور مطالبات کو سمجھتے تھے یہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو ہماری پسندیدہ تصنیف کار نثار عزیز بٹ کے رفیق سفر ہیں۔ خاص طور پر اگر ایک ہی گھر میں دو لکھنے والے جمع ہوں تو تصادم کی صورت کسی نہ کسی جگہ ضرور ظہور کرتی ہے مگر ہمارے ادبی گھرانوں میں یہ جوڑا اشفاق احمد اور بانو قدسیہ، حاجرہ مسرور اور احمد علی خان ، اداجعفری اور سعید جعفری، شیخ منظور الٰہی اور زہرا منظور الٰہی، مختار مسعود اور بیگم مختار مسعود جیسے چند قابل رشک جوڑوںمیں شمار ہوتا تھا، یہ سب ایسے لوگ تھے جن کو دیکھ کر شائستگی، شرافت، وضع داری کی روایت پر انسان کا یقین بڑھ جاتا تھا۔ میری جب بھی اصغر بٹ سے ملاقات ہوئی انہیں بہت شفیق اور محبت کرنے والا پایا، پچھلے کچھ عرصہ سے وہ ادبی دنیا سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور ان کی تحریریں نظر نہیں آتی تھیں مگر جو کچھ انہوں نے لکھا وہ ہماری ادبی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
یونس جاوید
اصغر بٹ حلقہ ارباب ذوق کے پرانے ممبر تھے اور جب میں نے حلقہ ارباب ذوق پر پی ایچ ڈی کیا تو اس میں ان کا خط پوسٹ کار ڈسیکرٹری کے نام بھی شامل کیا تھا، ان کی وجہ شہرت ریڈیائی ڈرامے تھے، ان کے ڈراموں کی کتاب منظر عام پر آئی تو الحمرا میں بڑا ادبی جلسہ منعقد ہوا تھا ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت خوش تھے، وہ فنی طور پر منجھے ہوئے اور پرفیکٹ رائٹر تھے، رفیع پیر کے بعد کی نسل میں اصغر بٹ، انور سجاد اور دیگر بھی شامل ہیں۔ مغرب سے یہ ڈرامہ ہمارے ہاں وارد ہوا ، اصغر بٹ ڈرامے سے جرنلزم کی طرف چلے گئے، ان کی وفات سے ادب کا درخشندہ باب تمام ہوا، خدا ان کے درجات بلند کرے۔
انور سجاد
اصغربٹ تھیٹر کے پہلے رائٹر تھے، انہوں نے جو کام کیا وہ اوریجنل تھا،شگفتگی ان کے مزاج اور تحریروں کا حصہ تھی، خدا انہیں کروٹ کروٹ بہشت بخشے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ (آمین)
مسعود اشعر
وہ بہت بھلے انسان تھے اور جو ڈرامے لکھے وہ اتنے عمدہ اور اچھے تھے کہ اس سے پہلے کبھی نہ لکھے جس زمانے میں صرف ریڈیو ہی تھا تو ان کا نام صف اول کے لکھنے والوں میں شامل تھا۔ انہوں نے انگلش میں بھی کالم لکھے چند سال قبل کتاب کی تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔
انجم ابراہیم
ریذیڈنٹ ایڈیٹر بزنس ریکارڈ
اصغر بٹ مرحوم جنہیں اب مرحوم کہتے ہوئے دل کو کچھ ہونے لگتا ہے دی نیشن کی ابتداءتھی اور ہم نے ان سے بہت کچھ یا یوں کہہ لیں سب کچھ سیکھا وہ بہت محبت کرنے والے انسان تھے، وہ بہت فرینڈلی اور کیرٹنگ تھے، بطور ٹیچر اور گائیڈ ان کی رہنمائی ہمیشہ یاد رہے گی ہمیںکوئی بھی مسئلہ درپیش ہوتا کہ فلاں آرٹیکل کیسے شروع یا ختم کیا جائے وہ سب کی فوری مدد کرتے۔ ان کی حسن مزاح بھی بلا کی تھی مزاح نگاری کا شمار اردو کی بہترین اصناف میں ہوتا ہے اور اس میں انہیں کمال ملکہ حاصل تھا۔ ہم اگر کبھی انہیں غلط بات بھی کہتے تو وہ ڈاٹنے یاتلخ ہونے کی بجائے خود چپ سادھ لیتے لیکن ہماری دل آزاری ہر گز نہ کرتے بھلا ایسے نفیس اور وضعدار لوگ کہاں ملیں گے۔ ان کی موت کا یقین نہیں آ رہا کہ اب ان سے کبھی نہ مل پائیں گے۔ خدا ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل اور ان کے درجات بلند کرے۔ (آمین)

ای پیپر دی نیشن