مرثیہ کا بنیادی موضوع حضرت امام حسینؓ کی شہادت عظمیٰ اور حق و صداقت کے لئے ہر عظمت قربانی ہے۔ مرثیہ میں نواسہ¿ رسول اور ان کے خاندان کے نفوسِ قدسیہ پر کئے گئے مظالم اور اس استبداد کے خلاف مقادمت اور ان کی حیات طیبہ کے واقعات کا بیان بھی بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن واضح رہے کہ یہ محض سیاسی واقعات اور جسمانی مصائب کا تذکرہ نہیں بلکہ مسلمِ اُمہ کا روحانی تجربہ ہے اور مقصد محض رونا رلانا یا آہ و فغاں بلند کرنا نہیں بلکہ انسانی روح کو پامالی سے اور صادق قدروں کو تکذیب سے بچانا ہے۔ چنانچہ جب میر ببر علی انیس نے مرثیہ نگاری کی تو انہوں نے اپنی روح میں اس شدید ترین کرب و اضطراب کو بھی محسوس کیا جس کی داخلی نوعیت تو شاید ایک ہی ہے لیکن مدارج مختلف ہیں۔ یہ اضطراب کبھی ماں کا غم بن کر سامنے آتا ہے، کبھی باپ کے کرب کی صورت اختیار کر لیتا ہے، کبھی بہن کا ماتم بن جاتا ہے، کبھی بھائی کی وفات پر گریہ¿ مسلسل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی معصوم بچے کی آہ بن جاتا ہے۔ اس غم کی ہر صورت جان لیوا اور ہر کیفیت جاں کاہ ہے۔ یہ ہر دل پر شدت سے طاری ہوتا ہے اور گریہ کی کیفیت پیدا کرتا ہے جو دل سے رستے ہوئے خون کا آنسو بن جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس غم کے ساتھ نہ غمِ رزق وابستہ اور نہ غمِ عزت، بلکہ یہ غم چونکہ مرگِ صداقت و اقدار سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی حیثیت لافانی اور تاثیر جاودانی ہے۔ دنیا میں جب بھی کوئی قیامت آتی ہے، ناانصافی ہوتی ہے، قدروں کو پامال کیا جانے لگتا ہے اور حاکمانہ جبر انصاف پر غالب آ جاتا ہے تو ہمیں میر انیس یاد آ جاتے ہیں، جنہوں نے بہت عرصہ پہلے اپنے زمانے کے ہر غم کا رشتہ شاہِ کربلا کے غم کے ساتھ قائم کر دیا تھا۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ جتنا کربلا کا واقعہ عظیم ہے، اسی قدر میر انیس کا غم گہرا ہے اور اس کا موازنہ میر تقی میر اور میرزا غالب کے غم سے کرنا خود میر انیس کے ساتھ انصاف نہیں۔
میر انیس کی ذاتی زندگی خاصی ہموار تھی۔ انہیں دشواریوں اور ناکامیوں سے کچھ زیادہ واسطہ نہیں پڑا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں کہ انہیں شعورِ غم ہی نہیں تھا یا اتنا بڑا شاعر اپنے عصری حالات سے غافل تھا۔ میر انیس کی آنکھوں کے سامنے دِلی کی بساط الٹی۔ اودھ پر انگریزوں نے قبضہ جمایا۔ یہ دو تاریخی واقعات اتنے بڑے ہیں اور ان کے اثرات اتنے دور رس ہیں کہ میر انیس ایک فطری اور سچے شاعر کی حیثیت میں ان سے چشم پوشی نہیں کر سکتے تھے۔ ہر چند ان کے مرثیوں میں ان واقعات اور قومی سانحات کی طرف بلاواسطہ اشارے کم کم ملتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس غم نے میر انیس کے دل میں ناخن پیوست نہیں کئے تھے۔ غم کا گہرا شعور تو میر انیس کے ہاں ابتدائی مرثیہ نگاری سے ہی پیدا ہو گیا تھا چنانچہ جب وہ فرماتے ہیں:
دبدبہ بھی ہو، مصائب بھی ہوں، توصیف بھی ہو
دل بھی محفوظ ہو، رقت بھی ہو، تعریف بھی ہو
بزم کا رنگ جدا، رزم کا رنگ جدا
یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستان جدا
تو ان کا شعورِ غم ہمارے سامنے آشکار ہوجاتا ہے۔ اور زخموں کا گلستان اس چمن کو دکھانے لگتا ہے جو تاراج ہوچکا ہے۔ مرثیہ کے فنی لوازمات کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے مناظر و مظاہر کی فنکارانہ عکاسی کی۔ زبان کے جوہر بھی دکھائے۔ حرکت و حرارت بھی پیدا کی۔ مرثیہ نگاری میں ڈرامے کے عناصر کو ذوق عطا کیا۔ غزل کے پیکر سلام کا تقدس بکھیر دیا۔ تاہم جب انہوں نے زخموں کا گلستان آراستہ کیا تو ایک عالمگیر غم کو آشکار کرنے کے لیے اس مو¿قف کو بھی پیش نظر رکھا کہ
”مرثیہ درد کی باتوں سے نہ خالی ہووے“
اور غم کے ذاتی اظہار کا مرحلہ سامنے آیا تو انہوں نے برگ ودیارِ غم کو ”ہوائے آہ“ سے تازہ کیا۔
آئے خزاں گلوں پہ تو ہو پھر بہارِ غم
تازہ ہوائے آہ سے ہو برگ دیارِ غم
داغوں کے گل کھلیں تو گلوں میں ہوخارِ غم
آنسو بہیں تو پھلولے پھلے شاخسارِ غم